ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا


ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوب زوجہ تھیں۔ ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو نہایت ہی اعلیٰ، ارفع اور قابل رشک مقام حاصل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ سے بہت زیادہ محبت تھی۔ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیار سے کبھی کبھی آپ کو حمیرا کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حسین و جمیل ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ذہین، عقلمند، معاملہ فہم اور نہایت با وقار خاتون تھیں۔

آپ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں۔ آپ کی والدہ کا نام ام رومان ہے اور آپ کی کنیت ام عبداللہ ہے۔

آپ کی ایک خصوصی شان یہ ہے کہ خود اللہ رب العزت نے آپ کی عفت و پاکیزگی کی گواہی دی اور آپ کے حق میں قرآن پاک کی آیات اتاریں۔

بنتِ صدّیق آرامِ جانِ نبی
اُس حریمِ برأت پہ لاکھوں سلام
یعنی ہے سورۂ نور جن کی گواہ
ان کی پرنور صورت پہ لاکھوں سلام

 آپ ہی وہ عظیم ہستی ہیں جن کے متعلق تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر ہے۔”

حبیبہ محبوب خدا 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت زیادہ محبوب تھیں۔ یعنی آپ حبیبہ محبوب خدا تھیں۔ چنانچہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! آپ کو لوگوں میں سب سے پیارا کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "عائشہ۔”

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی الله عنہا سے فرمایا: "رب کعبہ کی قسم! بے شک عائشہ تمہارے والد کو بہت زیادہ محبوب ہے۔” 

ریشم کے کپڑے میں لپٹی ہوئی تصویر 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام ریشم کے سبز کپڑے میں (لپٹی ہوئی) ان کی تصویر لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ دنیا و آخرت میں آپ کی اہلیہ ہیں۔

جبرائیل کا سلام

آپ کی ایک منفرد شان یہ بھی ہے کہ فرشتوں کے سردار حضرت جبریل علیہ السلام نے آپ کی بارگاہ میں سلام پیش کیا۔ چنانچہ آپ خود فرماتی ہیں کہ ایک روز رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! یہ جبرائیل تمہیں سلام کہتے ہیں۔ میں نے جواب دیا: ان پر بھی سلام ہو اور الله کی رحمت اور برکات ہوں۔

سخاوت

آپ بہت زیادہ سخاوت فرمایا کرتی تھیں، جو مال آپ کے پاس آتا، اسی وقت اسے راہ خدا میں دے دیتی تھیں۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے پاس اللہ کے رزق میں سے جو بھی چیز آتی وہ اس کو اپنے پاس نہ روکے رکھتیں بلکہ اسی وقت (کھڑے کھڑے) اس کا صدقہ فرما دیتیں۔‘

قناعت اور توکل

آپ نہایت قناعت پسند تھیں اور توکل کے اعلیٰ درجے پر فائز تھیں۔

ایک روایت میں ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ’’یا حبیب اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے رکھے‘‘۔ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اگر تم اس مرتبہ کو چاہتی ہو تو کل کے لئے کھانا بچا کے نہ رکھو اور کسی کپڑے کو جب تک کہ اس میں پیوند لگ سکتا ہے، بے کار نہ کرو‘‘۔

چنانچہ آپ کی ساری زندگی حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس وصیت و نصیحت کی آئینہ دار رہی، کل کے لئے کبھی کھانا بچا کر نہ رکھا اور کپڑا پھٹ جاتا تو سی لیتی تھیں اور اگر ضرورت ہوتی تو پیوند لگالیتی تھیں۔

رسول اللہ سے خصوصی رفاقت

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ امتیازی شرف حاصل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری ایام آپ کے حجرے میں گزارے۔ وصال کے وقت آپ رضی اللہ عنہا نے ہی اپنے دانتوں سے مسواک نرم کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی، یعنی آخری وقت میں آپ کا لعاب دہن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لعاب دہن سے مل گیا۔ اور جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر انور آپ کے سینہ اور حلق کے درمیان تھا، یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سینہ مبارکہ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ مبارک ہی، تمام جہانوں کے سردار کا مدفن شریف بنا، جہاں ستر ہزار فرشتے صبح اور ستر ہزار فرشتے شام کو حاضر ہوتے ہیں۔

جن کا پہلو ہو نبی کی آخری آرام گاہ  
   جن کے حُجرے میں قِیامت تک نبی ہوں جاگُزیں
آستاں اُن کا فرشتوں کی زِیارت گاہ ہے
کیونکہ اُس میں جَلوہ فرما ہیں اِمامُ الْمُرْسَلِیْن

کاش میں گمنام ہوتی 

 امام ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے کہ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے اندر آنے کی اجازت مانگی جبکہ وفات سے پہلے وہ عالم نزع میں تھیں۔ انہوں نے فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ یہ میری تعریف کریں گے۔ حاضرین نے کہا: یہ تو رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد اور سرکردہ مسلمانوں میں سے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: اچھا انہیں اجازت دے دو۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما نے پوچھا کہ آپ کا کیا حال ہے؟ جواب دیا: اگر پرہیزگار ہوں تو بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ان شاء الله بہتر ہی رہے گا کیونکہ آپ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا انہوں نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا اور آپ کی براءت آسمان سے نازل ہوئی تھی۔ ان کے بعد حضرت عبد الله بن زبیر رضی اللہ عنہ اندر آئے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا نے فرمایا: "حضرت عبد الله بن عباس آئے تھے وہ میری تعریف کر رہے تھے اور میں یہ چاہتی ہوں کہ کاش! میں گمنام ہوتی۔”

وصال مبارک

آپ کا وصال 17 رمضان المبارک 57ھ یا 58ھ کو 66 سال کی عمر میں ہوا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ کا مزار مبارک جنت البقیع میں ہے۔

حضرت عائشہ کے بارے میں صحابہ اور تابعین کے اقوال 

حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے جب کبھی بھی کوئی حدیث مشکل ہو جاتی تو ہم ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے اس کے بارے میں پوچھتے تو ان کے ہاں اس حدیث کا صحیح علم پالیتے۔

حضرت موسیٰ بن طلحہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر کسی کو فصیح نہیں دیکھا۔

حضرت عائشہ کے شاگردِ خاص اور بھانجے حضرت عروہ بن زبیر کہتے ہیں: ’’میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی صحبت میں رہا۔ میں نے ان سے زیادہ آیات کے شانِ نزول، فرائض، سنت، شعر و ادب، عرب کی تاریخ اور قبائل کے انساب وغیرہ اور مقدمات کے فیصلوں، حتیٰ کہ طب کا جاننے والا کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔

عطا بن ابی رباح کہتے ہیں: ’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا لوگوں میں سب سے بڑی فقیہ، سب سے زیادہ علم رکھنے والی اور عوام میں سب سے اچھی أصابت رائے رکھنے والی تھیں۔‘‘

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’رسول اللہ ﷺ کی امت میں، بلکہ مطلقاً سب ہی عورتوں میں ان سے زیادہ علم والی کسی عورت سے میں واقف نہیں ہوں۔‘‘

امام زہری جو کبار تابعین میں سے ہیں وہ فرماتے ہیں:”کانت عائشة اعلم الناس یسالھا الاکابر من اصحاب رسول اللہ ﷺ“ یعنی حضرت عائشہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والی تھیں اجِلہ صحابہ کرام ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔ دوسری جگہ یوں رقمطراز ہیں:”اگر تمام ازواج مطہرات کا علم بلکہ تمام مسلمان عورتوں کا علم جمع کیا جائے تو حضرت عائشہ کا علم سب سے اعلی وافضل ہوگا۔”

11 thoughts on “ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

تبصرہ کریں