مہرباں


دورانیہ=4=منٹ

 

کسی مہرباں نے آکے میری زندگی سجادی   میرے دل کی دھڑکنوں میں اک نئی آرزو جگادی

بازار میں یہ آواز لہرائی تو دوکانداروں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی اور خریداروں نے مڑ مڑ کر آواز کی سمت دیکھنا شروع کردیا۔ سفید کرتا پاجامہ میں ملبوس ایک شخص اپنی دھن میں گنگناتا ہوا چلا آ رہا تھا۔ چہرے پر بلا کا اطمینان ، بال سلیقے سے بنے ہوئے، چند سفید بالوں کی جھلک کنپٹی اور داڑھی میں نظر آ رہی تھی۔ کچھ دوکانداروں کی طرف مسکرا کر ہاتھ سے سلام کا اشارہ کرتے ہوئے خراماں خراماں بازار سے گزر گیا۔

ارے بیگم! وقت ہوگیا ہے جلدی آجاؤ، یہ کہتے ہوئے نہال بیگ نے کمرے میں جھانکا تو ان کی بیگم اپنے چھ ماہ کے بچے کو گود میں لیے بیٹھی تھی، غور سے بچے کو دیکھتی پھر مسکرا کراپنی ناک اس کے سینے سے رگڑتی تو وہ کھلکھلا اٹھتا، نہال بیگ یہ دیکھکر خود بھی ہنس پڑے اور بولے: تم تیار ہوگئی یا ایسے ہی بیٹھی ہواب تک؟ شوہر کی آواز سن کر بیوی نے سر اٹھا کر دیکھا اور مسکرا کر بولی: مجھے کیا تیار ہونا ہے، منا تیار ہے۔ نہال صاحب نے آگے بڑھ کر بچے کو گود میں اٹھا لیا۔ لوشن اور پاؤڈر کی خوشنما مہک ان کی ناک سے ٹکرائی، بچے کی آنکھوں میں کاجل اور گال پر کالا ٹیکہ دیکھ کر شفقت پدری نے جوش مارا تو انہوں نے بے اختیار اس کا گال چوم لیا۔

کتنی دعاؤں، منتوں اور مرادوں کے بعد اللہ نے انہیں بیٹا عنایت فرمایا تھا، اسی خوشی میں سب خاندان والے آج پکنک پر جا رہے تھے۔ سمندر کے کنارے پہنچ کر سب اپنے اپنے کھیل تماشوں میں مصروف ہوگئے لیکن نہال بیگ اور ان کی بیگم بچے کو لیے بیٹھے رہے، ان کی واحد خوشی بس یہی ننھی سی جان تھی۔ جب وہ مسکراتا تو ماں باپ کا دل کھل اٹھتا۔

مغرب کا وقت ہونے کو  تھا مگر کسی کو ہوش نہیں تھا، پھر ایک بڑی بی نے آوازیں لگا لگا کر سب کو بلایا۔ گاڑی میں بیٹھتے بیٹھتے سورج غروب ہوگیا اور گاڑی گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔

شام کو نہال آفس سے گھر پہنچے تو بیگم کو پریشان پایا کہ بچے نے صبح سے دودھ نہیں پیا اور بس آنکھیں موندھے لیٹا ہے، آنکھیں کھولتا ہے تو روتا ہے۔ یہ سن کر نہال بیگ بھی پریشان ہوگئے اور بیگم سے کہا: تم تیار ہو جاؤ ہم ابھی ڈاکٹر کے پاس جائیں گے۔

ڈاکٹر نے معائنے کے بعد کچھ ڈراپس لکھ دیے اور دودھ تبدیل کردیا۔ آج پورا ہفتہ ہونے کو تھا، کئی چائلڈ اسپیشلسٹ کو دکھا چکے تھے لیکن چند قطرے دودھ پینے کے سوا بچے میں کوئی تبدیلی نہ آئی اب تو اس کا چہرہ بھی مرجھا سا گیا تھا۔ ماں کا تو یہ حال تھا کہ ہر لمحہ دل پہ گھونسے لگتے تھے اور باپ بھی دفتر سے چھٹیاں لے کر پریشان حال پھر رہا تھا۔

ماں نے بچے کی طرف دیکھا تو پھول مرجھا چکا تھا، دل پر آرا سا چل گیا، آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بندھ گئی، دکھی دل سے پکار اٹھی: اے میرے رب! اگر اسے واپس ہی لینا تھا تو ہماری دعا قبول ہی کیوں کی تھی، دل کو کسی پل قرار نہیں تھا، اللہ جانے کیا دل میں سمائی کہ چادر اوڑھی اور بچے کو گود میں لے کر باہر نکل گئی، بے اختیار چلی جارہی تھی، آنسو ٹپک ٹپک کر بچے کے چہرے پر گر رہے تھے کہ کانوں سے ایک لہراتی ہوئی آواز ٹکرائی، کسی مہرباں نے آ کے میری زندگی سجادی۔۔۔۔۔ اس کے قدم خود بخود رک گئے، سامنے نظر پڑی تو وہی شخص خراماں خراماں چلا آ رہا تھا، قریب پہنچا، ماں کے آنسو بھرے چہرے پر نظر پڑی تو رک کر ایک نظر بچے کی طرف دیکھا، ماں نے بازو پھیلا کر بچے کو اس کے سامنے کر دیا اور خود پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ اس شخص کے ہونٹ حرکت میں آئے، کچھ لمحوں کے بعد اس نے دائرے کی صورت میں بچے پر پھونکا، بچہ کسمسایا، پھر لب ہلے چند ساعتوں کے بعد پھر پھونکا، بچے نے آنکھیں کھول دیں، ایک بار پھر لب حرکت میں آئے باد بہاری پھونکی گئی، خزاں رسیدہ پھول پر بہار آ گئی، بچہ کھلکھلا کر مسکرایا، ماں نے بچے کو مسکراتے دیکھا تو سارے میل ایک لمحے میں دھل گئے، بے اختیار اس کا منہ چوم لیا۔ آنسوؤں سے لبریز آنکھوں سے اس فرشتہ صفت انسان کو دیکھتے ہوئے پوچھا: آپ کون ہیں؟ کسی مہرباں کی مہربانی، اس نے مسکرا کر جواب دیا۔ ماں نے سر جھکا لیا اور پلو سے کچھ پیسے کھول کر اس کی طرف بڑھائے تو وہ پھر مسکرا کر بولا: میں ماں کے جذبات کا سودا نہیں کرتا۔ یہ کہکر آگے روانہ ہوگیا، وہی دل سوز آواز لہرائی، کسی مہرباں نے آکے میری زندگی سجادی۔ میرے دل کی دھڑکنوں میں اک نئی آرزو جگادی۔ اگلا مصرع ماں کے دل سے نکلا۔ 

1 thoughts on “مہرباں

تبصرہ کریں