شاہ فیصل کالونی کی مختصر تاریخ


تحریر: سید علی عمران

ریڈنگ منٹس10کل الفاظ1817

قیام پاکستان سے پہلے کا ڈرگ روڈ

یہ علاقہ دراصل کراچی کی ایک مشہور اور معروف سڑک ڈرگ روڈ کے نام سے موسوم تھا۔ یہ سڑک ایک انگریز کرنل ڈرگ کے نام سے منسوب تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اس سڑک کے دونوں جانب فوجیوں کے لیے بیرکس اور اسٹور تعمیر کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں ایک ریلوے اسٹیشن بھی تعمیر کیا گیا تھا جو خالص فوجی مقاصد کے لیے تھا۔ 1924 میں یہاں سول ہوائی اڈا بھی تعمیر کیا گیا تھا اور پھر دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فوجی ہوائی اڈا بھی تعمیر کیا گیا۔ انگریزوں نے ہندوستانی فضائی فوج کو ڈرگ روڈ کے مقام پر ہی منظم کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں اس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ اس ہوائی اڈے کو ایک اور اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسی ہوائی اڈے کے صدر دفتر میں قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے پرچم کو لہرانے کی تقریب منعقد ہوئی تھی اور یوں پہلی بار پاکستان کی فضاؤں میں سبز ہلالی پرچم اسی ہوائی اڈے پر لہرایا گیا تھا۔ ہوائی اڈا بننے اور ریلوے اسٹیشن کہ قیام کی وجہ سے اس علاقے میں ایک چھوٹا سا قصبہ وجود میں آگیا تھا جو ڈرگ روڈ کی مناسبت سے ڈرگ کالونی کے نام سے مشہور ہوا تاہم اس کے علاوہ بھی کچھ گوٹھ یہاں پہلے سے موجود تھے۔

اس چھوٹے سے قصبے میں ایک گرجا گھر بھی تھا جو اب تک قائم ہے۔ اس کے علاوہ پارسیوں کا مرگھٹ بھی ریلوے اسٹیشن کے قریب قائم تھا جس میں سینکڑوں گدھ اور چیلیں منڈلاتے رہتے تھے تاہم یہ مرگھٹ آبادی کے بڑھاؤ کے بعد ختم کر دیا گیا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد کی ڈرگ کالونی

قیام پاکستان کے بعد بہت بڑی تعداد میں ہندوستان کے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے پاکستان کی جانب ہجرت کی یہ لوگ تعلیم یافتہ اور انتہائی ہنر مند تھے مگر اپنا سب کچھ ہندوستان چھوڑ آئے تھے اور سب نے اپنی زندگی صفر سے شروع کی۔ جب ان کی تعداد بڑھی تو ان لوگوں نے کراچی کے مضافات میں رہائش اختیار کرنا شروع کی۔ 1950 میں جب کمشنر کراچی نے آبادکاری پروگرام کے تحت وسیع اراضی پر پلاٹ ڈرگ کالونی میں چکور نالے (کسی زمانے میں اس نالے پر موسم سرما میں چکور آکر بیٹھا کرتے تھے جس کی وجہ سے اس نالے کا نام چکور نالہ پڑ گیا) کے پاس زمین الاٹ کی تو لوگوں نے پہلے کچے مکانات بنانا شروع کیے۔ گھروں کی تعمیر کے لیے اکثر لوگ خود اپنے ہاتھوں سے مٹی کی کچی اینٹیں تیار کرتے اور گھروں کی چھتیں چٹائیوں سے بناتے۔ دروازے کھڑکیاں لگانے کے اگر پیسے نہیں ہوتے تو ٹاٹ کی بوریوں سے پردہ بنا کر لگا دیتے۔ کھلے گھر میں خواتین کے پردے کے انتظام کے لیے ایسی بیلوں کے پودے زمین میں لگائے جاتے تاکہ یہ بیلیں پھیل جانے کے بعد پردے کا کام کریں۔ شروع شروع میں بجلی کا تصور بھی نا تھا اور لالٹین ہی پر گزارا تھا۔

1951ء میں چکوری نالے سے تھوڑا آگے جا کر سرکار نے باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ 80 گز کے کوارٹرز بنانا شروع کیے اور اسے ایک نمبر سے پانچ نمبر تک پانچ بلاکس میں تقسیم کیا۔ کراچی میں مہاجرین کے لیے قائم مختلف عارضی خیمہ بستیوں میں سے لوگ ان کوارٹرز میں لا کر بسائے گئے۔ ان کوارٹرز میں بسنے والے مہاجرین میں سب سے زیادہ بڑی تعداد الہ اباد سے آنے والے مہاجرین کی تھی اس کے علاوہ بہار، لکھنو، فتح پور، امروہہ اور دہلی وغیرہ سے آنے والے مہاجرین بھی یہاں بڑی تعداد میں آباد ہوئے۔

قیام پاکستان سے پہلے کی ڈرگ کالونی ہمیشہ سے کنٹونمنٹ بورڈ کے زیر کنٹرول ٹھیک اور اب بھی کنٹونمنٹ بورڈ کے ہی انڈر آتی ہے اور یہ اب ایک بہت بڑی آبادی بن گئی ہے۔

گورنمنٹ کی طرف سے بسائی گئی کالونی میں 80 گز کے کوارٹرز اور کم رقبے پر دیگر رہائشی بلاکس کے علاوہ 400 گز کا رہائشی علاقہ بھی موجود ہے جس میں بڑے مکانات بنے ہوئے ہیں۔ یہ یہاں کا پوش علاقہ ہے اور انتہائی منظم منصوبہ بندی کے ساتھ بنایا گیا ہے۔

محترمہ فاطمہ جناح

1960 میں ڈرگ کالونی نمبر دو میں ہاجرہ آباد کالونی کے نام سے کمشنر سید دربار علی شاہ نے سنگ بنیاد رکھا جس کی تکمیل پر محترمہ فاطمہ جناح نے مکینوں میں چابیاں تقسیم کی۔ اس وقت ایک کوارٹر کی قیمت 3 ہزار روپے تھی اور وہ بھی قسطوں میں وصول کی گئی۔ اس میں ایک کمیونٹی سینٹر بھی قائم کیا گیا جس کا نام معروف خاتون بیگم قیوم کے نام پر رکھا گیا۔ اسی طرح کا 4 نمبر میں بھی ایک کمیونٹی سینٹر کھوکھر کلب کے نام سے قائم ہے۔ اس کے علاوہ شاہ فیصل ایک نمبر پر مرکزی سڑک بازار کی صورت اختیار کر گئی ہے جہاں سب سے قدیم بازار سبزی گلی کے نام سے مشہور ہے۔

کالونی کی ترقی میں سعید وارثی صاحب کا اہم کردار تھاجنہوں نے 1964ء میں مجلس سماجی کارکنان کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی جبکہ اس کا دفتر ایک نمبر پر بنایا گیا تھا۔

فوجی فاؤنڈیشن

ڈاکٹر قدسیہ شوکت عمر جو 1929ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی شادی کے 12 دن بعد ہی ان کے شوہر شوکت عمر کا انتقال ہو گیا۔ ڈاکٹر قدسیہ نے ان کی یاد میں 30 اگست 1960 کالونی میں ہی عید گاہ کے برابر میں شوکت عمر کے نام سے ایک ہسپتال قائم کیا۔ 1979ء میں انہوں نے اس ہسپتال کو فوجی فاؤنڈیشن کے حوالے کر دیا جو آج تک اسکے انتظام کو دیکھتا ہے۔

کچھ ذکر شاہ فیصل ٹاؤن کا

1974ء کی اسلامی سربراہی کانفرنس میں جب سعودی عرب کے بادشاہ جناب شاہ فیصل پاکستان تشریف لائے تو ان کے نام سے ڈرگ روڈ کا نام شاہراہ فیصل اور ڈرگ کالونی کا نام شاہ فیصل کالونی رکھ دیا گیا۔ یوں یہ پورا علاقہ شاہ فیصل کالونی کے نام سے مشہور ہو گیا تاہم اب بھی پرانے لوگ اسے ڈرگ کالونی کے نام سے ہی پکارتے ہیں۔

یہ علاقہ کراچی شہر کے شمال مشرق کی سمت میں واقع ہے۔ شاہ فیصل کالونی کا علاقہ ہمیشہ سے ضلع شرقی کا حصہ رہا ہے مگر 2000ء میں جب ضلعی نظام کو ختم کر کے ٹاؤن سسٹم متعارف کرایا گیا تو شاہ فیصل کالونی کو بھی ایک ٹاؤن بنا دیا گیا۔ یہ ٹاؤن ڈرگ روڈ کے اسٹیشن سے شاہراہ فیصل اور نیشنل ہائی وے کے ساتھ ساتھ ملیر ندی تک تھا۔ اس طرح شاہ فیصل کالونی کی حدود بھی بڑھ گئی اور اس میں ملیر کے علاقے شمسی سوسائٹی، الفلاح، رفاہ عام، باغ ملیر جامعہ ملیہ اور بابا ولایت شاہ کے مزار سے ملیر ندی تک کے علاقے شامل کر دیے گئے۔ 2013ء میں جب ٹاؤن سسٹم کو ختم کر کے دوبارہ ضلعی نظام نافذ کیا گیا تو شاہ فیصل کالونی کو نئے بننے والے ضلع کورنگی کی ایک تحصیل کے طور پر شامل کر لیا گیا۔ تاہم 2022 کے ضلعی ٹاؤن سسٹم میں شاہ فیصل ٹاؤن کو دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے۔ اس کے شمال مشرق میں ملیر، مشرق میں بن قاسم ٹاؤن، جنوب میں لانڈھی اور کورنگی ہیں جبکہ شمال مغرب میں فیصل کنٹونمنٹ واقع ہے۔

شاہ فیصل ٹاؤن کے مختلف علاقے

شاہ فیصل ٹاون میں ایک نمبر سے پانچ نمبر تک کے علاوہ سادات کالونی، ناتھا خان گوٹھ، ریتا پلاٹ، عظیم پورہ، گرین ٹاؤن، گولڈن ٹاؤن، پنجاب ٹاؤن، وائرلیس گیٹ، شمسی سوسائٹی، رفاہ عام سوسائٹی، الفلاح سوسائٹی، باغ ملیر، بابا ولایت شاہ کے مزار کا اطراف، گوہر گرین سٹی اور ملیر ندی تک کے دیگر گوٹھ شامل ہیں۔

تعلیمی ادارے

موجودہ دور میں شاہ فیصل کالونی کی تعلیم کے فروغ میں سب سے اہم کردار سپیریئر کالج، خورشید گرلز کالج اور گورنمنٹ کالج برائے خواتین پانچ نمبر شاہ فیصل کالونی کا ہے۔ شاہ فیصل کالونی سے لے کر ملیر تک کے رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد انہی دو کالجوں سے وابستہ رہی ہے۔ اس سلسلے میں خورشید گرلز کالج کی ایک سابقہ پرنسپل پروفیسر زینت ابتہاج کا کردار بہت اہم ہے۔

ان 3 تعلیمی اداروں سے بھی پہلے پورے مضافاتی علاقے میں جس ادارے کا سب سے اہم کردار رہا ہے وہ اسی ٹاؤن کے علامہ اقبال کالج کا ہے جو پہلے اسٹار گیٹ کے پاس واقع تھا اور پروفیسر حسنین کاظمی نے اپنے رفقاء کے ساتھ 1966ء میں قائم کیا تھا۔ 2002ء میں اس کالج کی گرلز کو شاہ فیصل 3 نمبر پر جامعہ حمادیہ کے برابر میں گرلز کالج کے لیے بنائی گئی نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ پرانی عمارت میں اور نئی عمارت میں بھی ایک طویل عرصے تک پروفیسر نوشابہ صدیقی پرنسپل رہیں۔ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کو منعقد کرانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔

جامعہ ملیہ کا قیام مولانا محمد علی جوہر نے 1920ء علی گڑھ میں کیا تھا جسے بعد میں دہلی منتقل کر دیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد ڈاکٹر محمود حسین نے 1948ء میں جامعہ ملیہ کے سابق طالب علموں کی ایک تنظیم بنا کر جامعہ ملیہ کے ہی نام سے بڑی اراضی حاصل کی اور مختلف تعلیمی ادارے کھولے۔ موجودہ ضلع ملیر اور ضلع کورنگی کی تعلیمی ترقی میں اس ادارے کا کلیدی کردار ہے۔

ان بڑے تعلیمی اداروں کے علاوہ شاہ فیصل ٹاؤن میں ہر بڑے اسکول کی برانچ موجود ہے۔ اس کے علاوہ نجی شعبے کے تحت قائم تعلیمی اداروں میں برائٹ سکسیس کوچنگ سینٹر، فارابی کوچنگ سینٹر اور آدم جی وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں جبکہ جامعہ فاروقیہ، جامعہ حمادیہ، مدرسہ قادریہ سبحانیہ اور دارالعلوم مدرسہ روحانیہ اسلامیہ جیسے بڑے مدارس بھی شاہ فیصل ٹاؤن میں واقع ہیں۔

معروف شخصیات

شاہ فیصل میں رہائش اختیار کرنے والے معروف ادبی لوگوں میں حمایت علی شاعر، ڈاکٹر ہلال نقوی، سرشار صدیقی، منظر ایوبی، سرور بارہ بنکوی، سید یاور مہدی، اوج کمال، شعیب ناصر، ساقی امروہوی، ابرار حسین اثر سلطان پوری، چھجن صاحب شامل ہیں۔ معروف ہاکی کے کھلاڑی سمیع اللہ، کلیم اللہ اور شہناز شیخ جبکہ کرکٹر توصیف احمد اور معروف بینکر زیارت علی کا بھی شاہ فیصل کالونی مسکن رہ چکا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج، جسٹس اقبال رضوی، پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین قادری، پروفیسر ناصر عباس، پروفیسر محمد کاظم، پروفیسر ذکا اللہ، پروفیسر سیف اللہ، پروفیسر قاسم قمبر، پروفیسر چودھری احسان اللہ، پروفیسر ڈاکٹر طاہر علی، پروفیسر اقبال، پروفیسر ڈاکٹر صبا زہرا، پروفیسر ڈاکٹر عدنان احمد، پروفیسر سعید الرحمن، پروفیسر مدثر اور معروف سیاست دان کنور قطب الدین کا تعلق بھی شاہ فیصل ٹاؤن سے ہی ہے۔

اگر کسی کو شاہ فیصل کالونی کے مزید مشاہیر کے بارے میں علم ہے تو برائے مہربانی مطلع فرمائیں تاکہ ان کے نام بھی شامل کر لیے جائیں۔

اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتب اور مضامین سے مدد لی گئی ہے

1۔ بلدیہ کراچی سال بہ سال (بشیر سدوزئی)

2۔ کراچی تاریخ کے ائینے میں (محمد عثمان دموہی)

3۔ شہروں میں شہر کراچی (نسرین اسلم شاہ)

4۔ سادات کالونی ڈرگ روڈ (سید ظہیر حسن زیدی)

5۔ عرب نیوز (29 مارچ 2019)

6۔ وادی ملیر (حمید ناضر)

7۔ کچے گھر تھے اور جھونپڑیاں (شگفتہ فرحت اخبار جنگ 6 اکتوبر 2021)

8۔  وکیپیڈیا


4 thoughts on “شاہ فیصل کالونی کی مختصر تاریخ

  1. ماشااللہ آپ نے اتنی پیاری معلومات ہم تک پہنچائ ہماری شاہ فیصل کالونی کی بہت شکریہ یہا ہمارا آستانہ نوری ہے جو ہماری کالونی کے لیے نہایت فخر کی بات ہے آج پوسٹ پڑھ کر پتہ چلا کہ ہماری کالونی کتنی پرانی ہے ۔

    Liked by 1 person

تبصرہ کریں