حلوائی


Time to read:4 minutes
Gajar Ka Halwa Images – Browse 888 Stock Photos, Vectors, and Video | Adobe  Stock

مغرب کی نماز پڑھ کر میں اور میرا کزن شہزاد مسجد سے باہر آئے تو شہزاد نے میری طرف دیکھ کر آہستہ سے کہا: ” چائے پیئیں ؟ ” سردی کے دن تھے، دل میرا بھی چاہنے لگا، میں نے اقرار میں گردن ہلا دی۔ سڑک پار کی اور ہوٹل میں داخل ہوکر ایسی جگہ بیٹھنے کے لیے منتخب کی جہاں آسانی سے کسی کی نظر نہ پڑے۔ دراصل اس زمانے میں ہوٹل میں بیٹھنا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا، معمولی سی جان پہچان والا بھی دیکھ لیتا تو گھر جا کر والد کو اطلاع دینا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ ملباری کی گرم اور مخصوص ذائقے والی چائے سے دل کو قرار بخشا، کاؤنٹر پر شرٹ اور دستر خوان جیسی گھٹنوں تک بندھی لنگی میں ملبوس شخص کو پیسے دے کر ہوٹل سے چوروں کی طرح باہر نکلے، ادھر ادھر نظر دوڑائی، جب تسلی ہوگئی کہ کوئی جان پہچان والا نہیں دیکھ رہا تو جاتے ہوئے ہوٹل میں بیٹھے ہوئے لوگوں پر اس طرح نظر ڈالی جیسے سب موالی ہوں۔

چورنگی کے قریب پہنچے تو دیسی گھی کی دلفریب خوشبو محسوس ہوئی، تھوڑا آگے بڑھے تو گاجر کے حلوے کی جنتی خوشبو بھی گھی میں شامل ہوگئی. سردیوں میں یہ خوشبو بہت رومانوی لگتی ہے، جیسے سردیوں کی کسی اداس سی شام میں تنہا درخت کے نیچے بیٹھا رانجھا بانسری بجا رہا ہو اور دیسی گھی میں بنے گاجر کے حلوے کی خوشبو ہیر کے آنے کی خبر دے رہی ہو۔ کوئی نیا حلوائی آیا ہے، میں نے گہری سانس لے کر شہزاد سے کہا۔ ہاں وہ رہا، شہزاد اپنے بائیں طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ ہم دونوں خوشبو کے منبع کی طرف روانہ ہوئے، کچھ قریب پہنچے تو معلوم ہوا واقعی کوئی نیا حلوائی آیا ہے، مزید نزدیک پہنچے تو دیکھا کہ رومانوی خوشبو بکھیر کر معصوم لوگوں کو عشق کی بیماری میں مبتلا کرنے والا وہ چھ ساڑھے چھ فٹ کا پہلوان تھا۔ نیلے رنگ کا چمکدار کرتا جس پر روپہلی زربفت کا کام کسی اناڑی کا کیا ہوا، سرخ تہبند جس کے نیچے سے چار انچ اوپر سنہری پٹی نے پوری تہبند کو اپنے حصار میں لیا ہوا، زیب تن کیے تھا۔ بال لمبائی کی بجائے چوڑائی میں بڑھے ہوئے تھے، گھنگھریالے ہونے کے سبب آپس میں الجھ کر چیل کے گھونسلے کی شکل اختیار کرچکے تھے۔ گھنی بھویں جن کے نیچے بڑی مگر چندھیائی ہوئی آنکھیں، بڑی گھنی مونچھیں جس نے اوپری لب کو اپنی آغوش میں چھپا لیا تھا، نظریں نیچے کیے پیشانی پر بل ڈالے، کھرچنے سے جلدی جلدی حلوے کو الٹ پلٹ کر رہا تھا، اس تیزی کی وجہ سے اس کی نرگسی کوفتے جیسی ناک بھی تیزی سے پھیل اور سکڑ رہی تھی۔ میرے تایا کو بھی گاجر کا حلوہ بہت پسند تھا، خیال آیا ان کے لیے لے لوں خوش ہونگے۔ٹھیلے پر ایک گتے کا ٹکڑا لٹک رہا تھا جس پر فی پاؤ کی قیمت درج تھی لیکن جیب میں صرف آدھا پاؤ کے پیسے موجود تھے۔ شہزاد سے کہا یار آدھا پاؤ لیتے ہیں تو اس نے ایک نظر پہلوان پر ڈالتے ہوئے کہا: ” کہیں آدھا پاؤ کا سن کر اسے غصہ نہ آجائے اور وہ کھرچنا سر پر مار دے "، دل میں انجانے سے خوف کی ایک لہر سی اٹھی، میں نے خود کو اور اسے تسلی دیتے ہوئے کہا: ” اگر وہ کھرچنا سر پر مارتا ہے تو بایاں پاؤں پیچھے لے جاتے ہوئے سر پر دونوں ہاتھوں کی قینچی بنا کر بلاک کر لیں گے "، کہنے کے ساتھ میں نے اس پوزیشن کا عملی مظاہرہ بھی کرکے دکھایا، شہزاد کو کچھ تسلی ہوئی تو ہم دونوں حلوائی کے قریب جا کر کھڑے ہوگئے، حلوائی بے نیازی سے اپنے کام میں مصروف رہا، شہزاد نے کئی مرتبہ اسے مخاطب کرنے کی کوشش کی لیکن آواز اس کے حلق سے برآمد نہ ہوئی۔ آخر میں نے ہمت کرکے کہا: ” آدھا پاؤ حلوہ دینا "، یہ سننا تھا کہ اس کا تیزی سے چلتا ہوا کھرچنا یکدم رک گیا، یوں محسوس ہوا جیسے زمین کی گردش رک گئی ہو، ستارے یوں ٹہر گئے جیسے شادی کے ہنگامے میں اچانک کوئی چیخ اٹھے: ” یہ شادی نہیں ہو سکتی "۔ حلوائی نے چہرہ گھما کر نیچے میری طرف دیکھا، میں ہاتھوں کی قینچی بنانے کے لیے تیار ہوگیا، حلوائی کی پیشانی کے بل مزید گہرے ہو گئے، ناک اس طرح پھیلنے اور سکڑنے لگی گویا کسی نے نرگسی کوفتے میں مرغی کی بجائے بطخ کا انڈا ڈال دیا ہو، ناک سے نکلنے والی تیز ہوا کی وجہ سے مونچھوں میں عجیب قسم کا ارتعاش پیدا ہوگیا تھا، میں اس انمول نظارے کی تاب نہ لا سکا اور نظریں جھکالیں۔ اچانک چند ساعتوں کے بعد میری سماعت سے ایک نہایت باریک اور منمناتی ہوئی آواز ٹکرائی جیسے کوئی چھوٹا سا بچہ اپنے ابا سے غبارا دلانے فرمائش کردے، ” کاغذ وچ دیواں کہ پلیٹ تے "۔

6 thoughts on “حلوائی

  1. شاہد بھائی، منظر نگاری بہت خوب تھی۔۔۔۔ ڈرامائی انداز بھی شاندار تھا۔ بس پوسٹ کا مقصد سمجھ نہیں سکا۔ کہیں یہ تو نہیں کہ دل میں پہلے سے برا گمان نہیں کرنا چاہیے کسی کے بارے میں۔۔۔ اپنا دل صاف رکھیں؟ باقی آپ سمجھا دیں۔

    Liked by 1 person

تبصرہ کریں