ذرا نم ہو تو۔ ۔ ۔ ۔


دورانیہ07منٹ

 

100+] Pakistan Flag Wallpapers | Wallpapers.com

سورج جانے سے پہلے آخری نظر جہاں پر ڈال رہا تھا، میں بورا اپنی پیٹھ پر لادے آہستہ آہستہ چل رہا تھا، گھٹنوں میں درد کی ایک ٹیس اٹھتی تو کچھ دیر ٹہر جاتا، درد کی لہر کے گزر جانے کے بعد پھر چلنا شروع کر دیتا۔ میرے سر اور داڑھی کے بالوں میں چند بال ہی کالے رہ گئے تھے۔ بورا اٹھانے کی وجہ سے میری بوڑھی کلائیوں کی رگیں پھول گئی تھیں، میری آنکھوں کے چراغ بھی ٹمٹمانے لگے تھے۔

میں چلتے چلتے ایک قہوہ خانے کے پاس پہنچا، کچھ نوجوان میز کے گرد بیٹھے تھے، اچانک میری ڈوبتی ہوئی سماعت سے ایک آواز ٹکرائی:” ابے ایسی کی تیسی اس ملک کی، سالا برباد ہو جائے، اس نے ہمیں دیا ہی کیا ہے؟ ” آواز کا کان کے پردوں سے ٹکرانا تھا کہ میرے دماغ میں گویا ایٹم بم پھٹا، میری ڈوبتی نبض تیز تیز چلنے لگی، بورا کمر سے پھسل کر زمین پر گر گیا، آنکھوں میں چنگاریاں سی لپکنے لگیں، میری مٹھیاں بھینچ گئیں، میں نے نظر اٹھا کر آواز کی طرف دیکھا، ایک نوجوان ہنس ہنس کر اپنے دوستوں کے سامنے مغلظات بک رہا تھا، خون نے جوش مارا تو ہمت بھی جوان ہوگئی میں نے لپک کر نوجوان کا گریبان پکڑ لیا، وہ پہلے تو اس اچانک افتاد پر ہکا بکا ہوا پھر تیزی  سے کھڑا ہوگیا۔ ” تو میری ماں، میرے وطن کو گالیاں دیتا ہے کمینے” میں دانت پیس کر بولا۔ نوجوان نے غصے سے میری دونوں کلائیاں پکڑیں اور ایک جھٹکے سے اپنا گریبان چھڑا لیا پھر ہاتھ کی ہتھیلی میرے سینے پر زور سے ماری جس کی ضرب اور دھکے سے میں پیچھے گرنے لگا، کرسی کا سہارا لینے کی کوشش کی تو کرسی سمیت زمین پر آ گرا۔ قہقہے بلند ہوئے، میں آہستہ سے کرسی کا سہارا لے کر اٹھا اور خاموشی سے بورا کمر پر لاد کر آگے روانہ ہوگیا۔ اپنے جھونپڑے میں پہنچ کر میں نے بورا دوسرے بوروں کے ساتھ رکھا اور لمبی سانس کھینچ کر اسی بورے سے کمر ٹکا کر آنکھیں موندھ لیں۔

گردش ایام پیچھے کی طرف دوڑنے لگے، میری بھربھری ہڈیاں مضبوط ہونے لگیں، میری آنکھیں خمار آلود ہو کر چمکنے لگیں، میرے بال کالے ہوکر پیشانی پر لہرانے لگے، گلے میں سرخ رنگ کا رومال بندھا تھا، مرے بائیں ہاتھ میں سگریٹ اور دائیں ہاتھ میں چائے کا کپ تھا، میرے دوست کسی بات پر ہنس رہے تھے۔ بات حالات پر چلی تو میرے منہ سے نکلا: ” بھاڑ میں جائے ایسا ملک اس نے ہمیں دیا ہی کیا ہے؟ ” اچانک میرے گریبان پر دو ہاتھ پڑے، میں کھڑا ہوگیا، سامنے ایک بوڑھا کھڑا سرخ آنکھوں سے مجھے گھورتے ہوئے بولا:” میرے وطن کو گالی دیتا ہے”۔ میں نے ایک جھٹکے سے اپنا گریبان چھڑا لیا اور ابے چل بڈھے کہتے ہوئے اسے دھکا دیا تو وہ دور جا گرا۔ دوست ہنسنے لگے، ایک بولا:” ابے بڈھے استاد کے گریبان میں ہاتھ ڈالتا ہے، شکر ہے تیرے ہاتھ نہیں توڑے”۔ بوڑھا خاموشی سے اٹھ کر بورے سمیت آگے روانہ ہوگیا۔ میں نے گلے میں پڑے رومال کی گانٹھ کو درست کیا اور دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ استاد اس بڈھے کے بارے میں سنا ہے’ ایک دوست نے منہ قریب کرکے رازداری سے کہا۔ کیا؟ میں نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے پوچھا۔ استاد اس نے اپنے گھر میں بوروں میں دولت چھپا رکھی ہے اور کسی کو ان کے قریب نہیں جانے دیتا، یہ بات اس کے سارے محلے والے جانتے ہیں۔ دوست اسی رازداری سے بولا۔ اچھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو پھر دیکھ لیتے ہیں کسی دن، میں بے نیازی سے کمر کرسی کی پشت سے ٹکا کر بولا۔

رات کافی بھیگ چکی تھی، آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے جن کی وجہ سے رات مزید کالی ہوگئی تھی۔ میں ایک دیوار کے پاس کھڑا اس کی اونچائی کا اندازہ کر رہا تھا، سگریٹ کا ایک لمبا کش لے کر میں نے اسے اندھیرے میں اچھال دیا۔ اچھل کر دیوار کا سرا پکڑا، ایک لمحے بعد میں دیوار پر تھا اور دوسرے لمحے میں دھپ کی آواز کے ساتھ دوسری جانب کود گیا، سناٹے میں ہلکی سی آواز بھی کافی محسوس ہوئی، میں جس پوزیشن میں کودا تھا اسی میں بیٹھا رہا۔ اچانک ایک کمرے سے آواز آئی، کون ہے؟ ایک بوڑھا کھانستا ہوا کمرے سے باہر نکلا، میں نے پھرتی سے اپنا چاقو نکالا اور لپک کر بوڑھے کی گردن دبوچی اور چاقو کی نوک گردن پر رکھ دی، بوڑھے کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا وہ نظریں گھما کر حیرت سے مجھے دیکھنے لگا، اتنے میں دوسرے کمرے سے ایک لڑکی کیا ہوا بابا؟ کہتی ہوئی برآمد ہوئی، میں نے بوڑھے کو چھوڑا اور چشم زدن میں چاقو لڑکی کی گردن پر رکھ دیا۔ ” یہاں کیا لینے آئے ہو؟” بوڑھا کھانستے ہوئے بولا۔ بڑا مال چھپا رکھا ہے بوروں میں، میں چہرے پہ خوفناک مسکراہٹ لاتے ہوئے بولا۔ تم سے کس نے کہہ دیا؟ لڑکی بولی۔ استاد کو خبر رہتی ہے، میں گلے کا رومال اوپر کرتے ہوئے فخر سے بولا۔ بوڑھے نے حسرت بھری نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا:” تجھے وہ دولت چاہیے؟” ہاں، میں حیران ہوا۔ آ تجھے اپنی دولت دکھاتا ہوں، بوڑھا میرا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف کھینچتے ہوۓ بولا۔ میں خاموشی سے اس کے ساتھ ہو لیا۔ وہ مجھے گھر کے ایک کونے میں لے گیا جہاں کچھ بورے پڑے تھے۔ ” یہ ہے میری دولت دیکھ لے”، بوڑھا میرا ہاتھ چھوڑتے ہوئے بولا۔ میری آنکھوں میں چمک آ گئی، میں تیزی سے آگے بڑھا اور اپنے چاقو سے ایک بورے کا سینہ چیر دیا۔ مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، بورے سے ہری ہری جھنڈیاں ابل پڑیں،  میں نے گھبرا کر دوسرے بورے پر چاقو مارا تو اس میں سے بھی یہی برآمد ہوا۔ چاقو میرے ہاتھ سے گر گیا، میں دونوں ہاتھوں میں جھنڈیاں لیے حیرت سے دیکھنے لگا پھر آہستہ سے بولا:” یہ کیا ہے بابا؟ ” یہ روحیں ہیں، بوڑھا روہانسا ہوگیا، روحیں ۔ ۔ ۔ ؟ میں نے آہستہ سے کہا، ہاں روحیں۔ ۔ ۔ بوڑھا تیزی سے آگے بڑھا اور ایک جھنڈی میری آنکھوں کے قریب کرتے ہوئے بولا: یہ دیکھو! یہ اس ماں کی روح ہے جس نے اپنے تین جوان بیٹے اس سر زمین پر قربان کردیے، بوڑھا دوسری جھنڈی اٹھا کر بولا: یہ دیکھ! یہ اس بچی کی روح ہے جس اپنی جان دے دی لیکن وطن کے پرچم کو خاک آلود نہ ہونے دیا، یہ دیکھ ! یہ روحیں، بوڑھے نے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں جھنڈیوں سے بھر لیں، یہ ان لوگوں کی روحیں ہیں جنہوں نے اس پاک زمین پر آنے کے لیے سکھوں کے ہاتھوں اپنی عزتیں، اپنی جانیں اپنا مال لٹا دیا۔ یہ دیکھ ! یہ روح ۔ ۔ ۔ یہ ایک اور روح، بوڑھے پر جنون کی کیفیت طاری ہوگئی، وہ ایک جھنڈی اٹھا کر میری نظروں کے سامنے کرنے لگا، میرے کان بند ہوگئے، رگوں میں خون کی رفتار سست پڑ گئی، میں نڈھال ہوکر اسی بورے پر بیٹھ گیا، بوڑھے کا سانس پھول گیا اب وہ کھانسنے لگا تھا۔ آسمان سے ٹپ ٹپ بوندیں گرنے لگیں، بادل زور سے گرجا اور موسلا دھار بارش ہونے لگی، میں اسی طرح سر جھکائے بیٹھا رہا، بارش نے تن بھگویا تو میرا من بھی بھیگ گیا اور میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

بچوں کے شور سے میری آنکھ گئی، سورج کی کرنوں نے میری جھونپڑی کی دراڑوں سے جھانکنا شروع کردیا تھا۔ میں نے ایک بورا اٹھایا اور باہر نکل آیا۔ آج چودہ اگست کی صبح تھی، بچے رنگ برنگے لباس میں ملبوس ہاتھوں میں جھنڈیاں لیے، ادھر سے ادھر دوڑ رہے تھے، دور کہیں سے نغمے کی آواز آرہی تھی۔ ۔ ۔ ” اے وطن کی مٹی گواہ رہنا "۔ میرے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی اور میں آگے بڑھ کر گری ہوئی جھنڈیاں اپنے بورے میں محفوظ کرنے لگا۔


8 thoughts on “ذرا نم ہو تو۔ ۔ ۔ ۔

  1. مکررات:
    میں: 62 بار
    میری: 15 بار
    میرے: 12 بار
    ہاتھ، بوڑھا: 9،9 بار

    طویل الفاظ:
    چنگاریاں 8
    جھونپڑے، کھانسنے، رازداری: 7، 7 بار

    جملے: 72، پیراگراف: 5 : پیراگراف نارمل سے لمبے اور ان میں جملوں کا اوسط زیادہ ہے۔ تاہم جملوں کی لمبائی نارمل ہے۔

    سب سے بڑی مکرر لفظی ترکیبیں:
    اس نے ہمیں دیا ہی کیا ہے
    ایک جھٹکے سے اپنا گریبان چھڑا لیا

    سب سے زیادہ آنے والی لفظی ترکیب (بائگرام):
    میں نے: 12 بار

    منفرد الفاظ:
    کل 478 (38 فیصد)

    تقلیبی الفاظ:
    درد، ٹوٹ، یہی

    تقلیبی فقرات:
    کی ایک

    پینگرام جملہ: (33 منفرد حروف)
    آواز کا کان کے پردوں سے ٹکرانا تھا کہ میرے دماغ میں ایٹم بم پھٹا، میری ڈوبتی نبض تیز تیز چلنے لگی، بورا کمر سے پھسل کر زمین پر گرگیا، آنکھوں میں چنگاریاں سی لپکنے لگیں، میری مٹھیاں بھینچ گئیں، میں نے نظر اٹھا کر آواز کی طرف دیکھا، ایک نوجوان ہنس ہنس کر اپنے دوستوں کے سامنے مغلظات بک رہا تھا، خون نے جوش مارا تو ہمت بھی جوان ہوگئی میں نے لپک کر نوجوان کا گریبان پکڑ لیا، وہ پہلے تو اس اچانک افتاد پر ہکا بکا ہوا پھر تیزی سے کھڑا ہوگیا

    کل اعداد: (234,899)، سب سے بڑا لفظ: مغلظات (اعداد 2371)

    اے۔ آر انڈیکس: 8.72
    کولمین لیاؤ انڈیکس: 3.09

    کل منفرد حروف: 38، کل منفرد غیر حروف: 10، کل مفنرد کیریکٹرز: 48

    سب سے زیادہ آنے والے حروف: ا، ی، ر
    سب سے زیادہ آنے والے غیر حروف: اسپیس، کامہ، ختمہ

    سب سے چھوٹا جملہ: اچھا۔
    سب سے بڑا جملہ: میں چلتے چلتے ایک قہوہ خانے کے پاس پہنچا، کچھ نوجوان میز کے گرد بیٹھے تھے، اچانک میری ڈوبتی ہوئی سماعت سے ایک آواز ٹکرائی:” ابے ایسی کی تیسی اس ملک کی، سالا برباد ہو جائے، اس نے ہمیں دیا ہی کیا ہے؟ ” آواز کا کان کے پردوں سے ٹکرانا تھا کہ میرے دماغ میں ایٹم بم پھٹا، میری ڈوبتی نبض تیز تیز چلنے لگی، بورا کمر سے پھسل کر زمین پر گرگیا، آنکھوں میں چنگاریاں سی لپکنے لگیں، میری مٹھیاں بھینچ گئیں، میں نے نظر اٹھا کر آواز کی طرف دیکھا، ایک نوجوان ہنس ہنس کر اپنے دوستوں کے سامنے مغلظات بک رہا تھا، خون نے جوش مارا تو ہمت بھی جوان ہوگئی میں نے لپک کر نوجوان کا گریبان پکڑ لیا، وہ پہلے تو اس اچانک افتاد پر ہکا بکا ہوا پھر تیزی سے کھڑا ہوگیا۔

    نوری زکوٰۃ: 2.5 بار روزانہ

    پڑھنے کا وقت: 6.3 منٹ، پڑھ کر سنانے کا وقت: 10.5 منٹ، کاغذ پر لکھنے کا وقت: 97 منٹ، موبائل پر لکھنے کا وقت: 50.4 منٹ، ٹائپنگ کا وقت: 46.7 منٹ، زبانی ٹائپنگ کا وقت: 34.08 منٹ، منہ زبانی یاد کرنے کا وقت: 12.5 گھنٹے۔

    چھوٹے فونٹ میں: 3 صفحات، بڑے فونٹ میں 7 صفحات

    بارہواں کیریکٹر: ے
    بارہواں حرف: ہ
    بارہواں کلمہ: میں
    بارہواں جملہ: دوست ہنسنے لگے، ایک بولا:” ابے بڈھے استاد کے گریبان میں ہاتھ ڈالتا ہے، شکر ہے تیرے ہاتھ نہیں توڑے”۔

    پوسٹ کا پہلا پیراگراف (اگر آپ پڑھ سکیں تو ❤️)
    سروج جانے سے پلہے آرخی نظر جاہں پر ڈال رہا تھا، میں بروا اپنی پیٹھ پر لادے آستہہ آتہسہ چل رہا تھا، گنٹوھں میں درد کی ایک ٹیس اتھٹی تو کچھ دیر ٹہر جاتا، درد کی لہر کے گزر جناے کے بعد پھر چنلا شروع کر دیتا۔ میرے سر اور دڑھای کے بوالں میں چند بال ہی کلاے رہ گئے تھے۔ بورا اناٹھے کی وجہ سے میری بڑھوی کیائولں کی ریگں پھول گئی تیھں، مریی آنوھکں کے چارغ بھی ٹٹمامنے لگے تھے۔

    میرا خیال ہے کہ اتنا تجزیاتی تبصرہ کافی ہے. یہ ایک مختصر پوسٹ کے برابر ہے، اگر آپ اس سے کچھ سکیھ سکیں۔ 570 الفاظ کا تبصرہ ہے۔

    Liked by 1 person

  2. شاہد بھائی آپ نے اپنی پوسٹ کے ذریعے بہترین پیغام دیا ہے۔ جشن آزادی کا مقصد لوگ بھول گئے ہیں اور آزادی کو محض تفریح کا سامان بنا لیا ہے۔ ہمارے اسلاف نے کتنی عظیم قربانیوں کے بعد ہمیں یہ پیارا وطن اس لیے دیا تاکہ مسلمان آزادی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکیں۔ شعار اسلام کو اپنا کر سنت رسول ﷺ کے مطابق زندگی بسر کریں۔ آج جو پاکستانی عوام کا حال ہے ہمارے اسلاف کی روحیں قبر میں تڑپتی ہوں گی کہ ہم نے کن مقاصد کے لیے انہیں آزاد ملک دیا تھا اور سب کہ سب بس جائز ناجائز کمانے کے دھندے میں، سیر و تفریح میں، عیاشی میں لگے ہوئے ہیں۔
    اللہ تعالیٰ پاکستان کو ترقی و استحکام عطا فرمائے اور ہماری عوام کے دلوں میں دین کی روح کو زندہ فرمائے آمین یارب العالمین!

    Liked by 4 people

  3. واہ اپنے ملک سے محبت اور ملک کی عزت کا جزبہ تھا اس پوسٹ میں لیکن ہمارے آس پاس بھی ایسے نظارے دیکھنے کو ملے گے کہ لوگ خوب پیسے خرچہ کرکے پہلے جھنڈیاں لائے گے گھر پہ سجاوٹ ہوگی اور پندرہ اگست کو یہ جھنڈیاں روڑوں پہ بکھری پڑی ہوگی اللہ پاک محبت کے ساتھ عزت کرنےوالا جزبہ بھی عطا فرمائے آمین ۔

    Liked by 3 people

تبصرہ کریں