چاند مشن


Time to read:10 minutes

اکیس جولائی، رات ایک بجکر سترہ  منٹ پر

کیا آپ جانتے ہیں کہ آج سے تقریباً چون (54) سال پہلے ، میری پیدائش سے ٹھیک ایک مہینہ اور ایک  دن یعنی 32 دن  پہلے، اکیس جولائی سن 1969 کو پاکستانی وقت کے مطابق صبح ایک بجکر سترہ  منٹ پر (اور بعض روایات اور حسابی عمل کے مطابق ایک بج کر چھپن منٹ پر)انسانیت کی عظمت کی کون سی تاریخ رقم کی گئی تھی؟ یقیناً جانتے ہوں گے، صرف آپ ہی کیا، ساری دنیا جانتی ہےکہ اس دن، اس وقت انسان نے چاند پر پہلا قدم رکھا تھا۔

یہ دھیان میں رہے کہ چونکہ یہ کامیابی امریکیوں نے حاصل کی تھی، اس لئے چاند پر پہنچنے کی تاریخ انہی کی یاد رکھی جائے گی، یعنی بیس جولائی۔ اگر پاکستانی قوم یہ کامیابی حاصل کرتی تو تاریخ ہماری اپنی ہوتی، یعنی اکیس جولائی۔ کیونکہ چاند پر امریکی سینٹرل ٹائم کے مطابق پہنچے تھے جو کہ یو۔ ٹی۔ سی ( Coordinated Universal Time) سے 6 گھنٹے پیچھے ہے، جبکہ پاکستان یو۔ٹی۔ سی سے پانچ گھنٹے آگے ہے۔ تو اگر وہ اپنے  وقت کے مطابق دن کے تین بجکر سترہ منٹ پر چاند پر اترے (بر سبیلِ تذکرہ پاکستان نے ایٹمی دھماکہ 3:16 پر کیا تھا)تو پاکستانی وقت کے مطابق رات کے ایک بجکر سترہ منٹ ہورہے تھے۔ کیونکہ فلوریڈا ڈی۔ ایس۔ ٹی (ڈے لائٹ سیونگ ٹائم) کو فالو کرتا ہے۔ اور اپالو 11 کی لانچ سائٹ امریکی ریاست فلوریڈا ہی تھی جس کے کینیڈی اسپیس سینٹر سے راکٹ نے چاند کیلئے اڑان بھری تھی۔

یہ نیل آرمسٹرانگ(Neil Armstrong)، ایڈون آلڈرین (Edwin Aldrin) اور مائکل کولنس (Michael Collins) کی ہی نہیں، بلکہ ساری انسانیت کی کامیابی تھی۔

چاند مشن: آٹھ دن میں آکسیجن کے تین لاکھ لٹرز

ایک گھنٹے میں ایک جوان آدمی اوسطاً 20 گرام  (دن بھر میں آدھا کلوگرام)آکسیجن خرچ کرتا ہے۔اور اپالو-11 کا مشن 195 گھنٹے کا تھا، اس حساب سے ایک خلاباز نے تقریباً چار کلو آکسیجن استعمال کی اور تین نے کل بارہ کلو گرام آکسیجن اپنے عمل تنفس میں خرچ کی۔ رپورٹس کے مطابق اپالو-11 مشن میں آکسیجن کا کل خرچ چارسو کلوگرام (چالیس من یا تقریباً آدھا ٹن) تھا، اس میں فیول سیل کی آکسیجن، سانس لینے کیلئے درکار آکسیجن اور کیبن کو ٹھنڈا رکھنے کیلئے آکسیجن سب شامل ہیں۔ یعنی تین آدمیوں کے اس مشن میں ہر گھنٹےتقریباً دو کلو آکسیجن خرچ ہوئی۔ یعنی ہر گھنٹے میں ہماری زمین کی صاف ستھری ڈیڑھ ہزار لیٹر آکسیجن خلابرد کی گئی۔ اس طرح صرف ایک خلائی مشن میں زمین کی تین لاکھ (291,729 )لٹر آکسیجن (آکسیجن کی کثافت بہت کم ہوتی ہے)خلا ئی دوڑ کی نذر ہوگئی۔ باقی مشن کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ایک مشن نے ایک آدمی کی دو سال کی آکسیجن خلا میں جلا ڈالی۔ یہ یاد رکھیں کہ خلا میں راکٹ فیول کے جلنے کیلئے آکسیجن لازمی درکار ہوتی ہے۔

یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ اپالو کے کل گیارہ مشن خلا میں گئے تھے اور ان میں آٹھ ٹن آکسیجن لے جائی گئی تھی۔یعنی 55 لاکھ لٹرز آکسیجن صرف اپالو کے 11 مشنز نے ہی خرچ کی ہے۔ یہ آکسیجن زمین کا خزانہ تھی۔

مریخی مشن اور چار ٹن آکسیجن

مریخ جب ہم سے قریب ترین فاصلے پر ہو تو اس تک ہماری  موجودہ ٹیکنالوجی کی مدد سے 203 دن میں پہنچا جاتا ہے۔ روشنی اسی فاصلے کو تین منٹ میں طے کرلیتی ہے۔ یعنی آنا جانا 406 دن میں ہوگا۔ یعنی مریخ تک ایک مشن کا بغیر کسی انسان کے صرف آنا جانا ہی تین سے چار ٹن آکسیجن خلا میں پھونک دے گا۔ یعنی مریخ کے پانچ مشن ایک آدمی کی زندگی بھر کی آکسیجن کو خلا میں پھونک دیتے ہیں۔

آئی۔ ایس۔ ایس مشن: ایک لاکھ کلو آکسیجن

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی۔ ایس۔ ایس) جو بیس سالوں سے خلا میں ہے، اب تک ایک لاکھ کلوگرام آکسیجن خلا میں استعمال کرچکا ہے۔ اگرچہ اب وہاں معمولی مقدار میں آکسیجن کی تیاری ممکن ہوچکی ہے لیکن ظاہر سی بات ہے کہ اس آکسیجن کا بڑا حصہ زمین سے ہی گیا ہے۔ یہ ہر سال 12 ہزار کلوگرام آکسیجن خرچ کرتا ہے،

ناسا کا اگلا چاند مشن آرٹیمس 2 ہے، جو سنہ 2023 میں 11 نومبر کو لانچ ہونے کا منصوبہ ہے۔ اس مشن میں چار خلاباز شامل ہوں گے، جن کے نام ناسا نے اپریل 2023 میں اعلان کیے تھے۔ وہ یہ ہیں:

  1.  رکس والہائم، جو مشن کے کمانڈر ہوں گے اور پہلے بھی تین بار خلا میں رفتار کر چکے ہیں
  2.  سٹیفن بووین، جو مشن کے پائلٹ ہوں گے اور پہلی بار خلا میں رفتار کریں گے
  3.  کائلا بارنز، جو مشن کی فلائٹ انجینئر ہوں گی اور پہلی بار خلا میں رفتار کریں گی
  4.  زینا کاردمن، جو مشن کی فلائٹ انجینئر ہوں گی اور پہلی بار خلا میں رفتار کریں گی

آرٹیمس 2 مشن کا مقصد خلابازوں کو پہلی بار دوبارہ سنہ 1972 کے بعد سے چاند کے قریب لانا اور اس کا مدار دینا ہے . اس مشن میں خلابازوں کو اورائن خلائی جہاز میں سفر کرنا ہوگا، جس نے حال ہی میں آزمائشی پرواز آرٹیمس 1 مکمل کر لی تھی . آرٹیمس 2 مشن تقریباً دس دن تک جاری رکھا جائے گا، جس کے دوران خلابازوں کو خلا اور فضائی ماحول سے واسطہ رکھنا ہوگا اور سائنسی تجربات کرنے ہوں گے .

ناسا کا ارادہ تو نومبر 2023 کا تھا، لیکن یہ پروگرام کچھ تاخیر کا شکار ہوا ہے اور اب فروری 2024 میں لانچ متوقع ہے، ممکن ہے کہ اس میں مزید تاخیر ہوجائے۔ خیر، ہمیں تو انتظار رہے گا۔

یہ یاد رہے کہ چاند پر اپالو کے 11 مشنز گئے تھے۔ آخری اپالو-17 تھا، اس کے بعد سے (1972 کے بعد سے) ابھی تک کوئی انسان چاند پر نہیں گیا۔

روس کا چاند کا پہلا مشن

سب سے پہلا غیر انسانی مشن چاند پر سوویت یونین کا 3 نومبر، 1959 کو لانچ کیا گیا لاؤنا 2 تھا۔ لاؤنا 2 چاند کی سطح پر پہنچنے والا پہلا خلائی جہاز تھا۔ یہ چاند کے گرد مدار میں داخل ہوا اور 15 مارچ، 1960 کو لینڈ کر گیا۔ لاؤنا 2 نے چاند کی سطح سے کچھ تصاویر بھی لی تھیں۔

لاؤنا 2 کے بعد سوویت یونین نے لاؤنا 3، لاؤنا 4، لاؤنا 5، لاؤنا 6 اور لاؤنا 7 بھی چاند پر بھیجے تھے۔ ان میں سے ہر ایک مشن نے چاند کے بارے میں کچھ نئی معلومات فراہم کی تھیں۔

1966 میں، سوویت یونین نے لاؤنا 9 کو چاند پر بھیجا تھا۔ لاؤنا 9 چاند کی سطح پر پہنچنے والا وہ پہلا مشن تھا جس کے پاس لینڈنگ ویگن تھی۔ لاؤنا 9 نے چاند کی سطح پر 2 دن اور 20 گھنٹے گزارے اور اس دوران اس نے چاند کے بارے میں بہت سی تصاویر اور معلومات فراہم کی تھیں۔

چاند پر سب سے پہلے غیر انسانی مشن سوویت یونین کا لاؤنا 2 تھا، جو 3 نومبر، 1959 کو لانچ کیا گیا تھا۔ یہ چاند کی سطح پر پہنچنے والا پہلا خلائی جہاز تھا۔ لاؤنا 2 نے چاند کی سطح سے کچھ تصاویر بھی لی تھیں۔

1969 میں، ریاستہائے متحدہ نے اپولو 11 کو چاند پر بھیجا تھا۔ اپولو 11 چاند پر پہنچنے والا پہلا مشن تھا جس کے پاس انسان تھے۔ اپولو 11 کے خلابازوں نے چاند پر قدم رکھا اور چاند کے بارے میں بہت سی تصاویر اور معلومات فراہم کی تھیں۔ اپولو 11 کے بعد، ریاستہائے متحدہ نے اپولو 12، اپولو 14، اپولو 15، اپولو 16 اور اپولو 17 کو بھی چاند پر بھیجا تھا۔ ان میں سے ہر ایک مشن نے چاند کے بارے میں کچھ نئی معلومات فراہم کی تھیں۔آخری بار ریاستہائے متحدہ نے 1972 میں اپولو 17 کو چاند پر بھیجا تھا۔ اس کے بعد سے، کوئی بھی انسان چاند پر نہیں گیا ہے۔

چین کا چاند مشن

چین نے بھی چاند پر اپنے کئی مشن بھیجے ہیں جو چینگی (Chang’e) کے نام سے بھیجے گئے تھے۔ یہ سب کے سب مشینی تھے۔  کوئی مشن انسان بردار نہیں تھا۔ چینگی-1 سال 2007 میں بھیجا گیا جس کا مقصد چاند کا تفصیلی نقشہ تیار کرنا تھا۔ چینگی-2 سال 2010 میں بھیجا گیا، اس کا مقصد چاند پر اترنا تھا۔ چینگی-3 سال 2013 میں بھیجا گیا۔ اس کا مقصد چاند سے نمونے اور ڈیٹا حاصل کرنا تھا۔ چینگی-4 سال 2018 میں بھیجا گیا۔ اس کا روور اب تک کام کر رہا ہے۔ چینگی-5 سال 2020 میں بھیجا گیا۔ یہ چاند سے قیمتی نمونے زمین پر لایا تھا۔ چینگی-6  سال 2024 تک متوقع ہے اگرچہ اس کا پلان 2023 کا تھا لیکن یہ کچھ تاخیر کا شکار ہوا۔

یاد رہے کہ چین نے اپنے چاند مشن کا نام "چاند کی دیوی” کے نام پر چینگی رکھا ہے۔ 

انڈیا کا چاند مشن

انڈیا کا چاند پر جانے کا مشن چندریان تھری لانچ کیا رہا ہے جس کے ذریعے روور کو چاند پر پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس سے پہلے امریکہ، سابق سوویت یونین اور چین چاند پر کامیاب لینڈنگ کر چکے ہیں جبکہ جاپان نے رواں سال کے آغاز میں کوشش کی تھی جو ناکام ہو گئی تھی۔

انڈیا بھی چاند گاڑی کی لینڈنگ سے ان طاقتوں میں شامل ہونا چاہتا ہے جو خلائی محاذ پر متحرک ہیں۔چندریان 3 انڈیا کا چاند پر جانے واالا تیسرا مشن ہے جس پر 7 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی لاگت آئی ہے۔

اس مشن نے  جمعے کو (14 جولائی 2023) انڈین ریاست اندھرا پردیش میں واقعہ خلائی مرکز سے پرواز بھری ہے ۔  اگر تمام مراحل پلاننگ کے مطابق کامیابی سے ہو گئے تو خلائی گاڑی 23 اگست کو چاند پر لینڈ کرے گی۔ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کا یہ پہلا بڑا خلائی مشن ہوگا جو انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن لانچ کرنے جا رہی ہے۔

چندریان کا مطلب سنسکرت زبان میں ’چاند گاڑی‘ ہے۔ اس خلائی مشن کے دوران 2 میٹر لمبی روور یعنی گاڑی کو چاند کے جنوبی قطب کے قریب پہنچایا جائے گا جو دو ہفتے میں مختلف تجربے کرے گی۔

ماہرین کے خیال میں چاند پر روور لانچ کرنے کا ایک اور بھی مقصد ہے جس کے ذریعے دراصل انڈیا دنیا کو یہ پیغام بھجوانا چاہتا ہے کہ وہ خلائی دوڑ میں نجی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار کے لیے تیار ہے۔

انڈیا چندریان 2 خلائی مشن کو سال 2020 میں لانچ کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا لیکن چاند کے جنوبی قطب پر لینڈنگ کے دوران اس کی لینڈر اور روور کریش کر گئی تھی۔ یہ وہی مقام ہے جہاں چندریان تھری مشن کے دوران ایک مرتبہ پھر روور یعنی چاند گاڑی کو پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔

گزشتہ ماہ دورہ امریکہ کے دوران وزیراعظم نریندر مودی اور امریکی صدر جو بائیڈن کی ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے خلائی میدان میں تعاون کے فروغ کا عہد کیا تھا۔

مستقبل قریب کے چاند مشن

مستقبل میں چاند کے کئی مشن منصوبہ بند ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:

  1. * امریکہ کا آرٹیمس پروگرام، جو 2024 تک انسانوں کو دوبارہ چاند پر لانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ آرٹیمس پروگرام چاند پر ایک مستقل انسانی موجودگی قائم کرنے کی بھی کوشش کرے گا۔
  2. * جاپان کا چاند کا مشن ہپ، جو 2025 کے وسط میں چاند پر لینڈ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ ہپ چاند پر ایک بیس اسٹیشن بنانے کی کوشش کرے گا۔
  3. * جنوبی کوریا کا چاند کا مشن لونا-25، جو 2022 کے آخر میں چاند پر لینڈ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ لونا-25 چاند کے اندر کے ماحول کو دریافت کرنے کی کوشش کرے گا۔ تاہم 2023 میں جنوبی کوریا کا چاند کا مشن لونا-25 لانچ ہونے کا امکان نہیں ہے۔ جنوبی کوریا کی خلائی ایجنسی نے اعلان کیا ہے کہ مشن کو 2024 میں لانچ کرنے کا منصوبہ ہے، کیونکہ وہ اس سے پہلے لانچ کرنے کے لیے اپنے مشن کی تیاری کے لیے کافی وقت نہیں دے سکتا ہے۔

یہ صرف مستقبل میں چاند کے کچھ مشن ہیں جو منصوبہ بند ہیں۔ چاند پر تحقیق اور دریافت کے لیے آنے والے سالوں میں بہت سے اور مشن ہوں گے۔

پاکستان کا چاند مشن

دادی اماں کہتی ہیں
چاند پہ پریاں رہتی ہیں

 

3 thoughts on “چاند مشن

تبصرہ کریں