چھبیسویں محفل


Time to read: 11 minutes

13 ذی قعدہ، 1444 ہجری
(مطابق 3 جون، 2023  عیسوی، بروز ہفتہ، رات آٹھ سے گیارہ)

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

  1. دماغی صحت
  2. حاضری
  3. وقت پر آؤ
  4. ہومیوپیتھک ڈاکٹر اور ایلو پیتھک ڈاکٹر میں فرق
  5. ڈاکٹر رفیق صاحب
  6. سرچ اور ریسرچ میں فرق
  7. دماغ یاداشت کو کس طرح محفوظ کرتا ہے؟
  8. پیغام

دماغی صحت

دماغی صحت جذباتی، معاشرتی اور نفسیاتی تندرستی سے مل کر بنتی ہے۔ ہماری ذہنی صحت ہماری کھانے کی عادات، جسمانی سرگرمی کی سطح، مادہ کے استعمال کے سلوک، اور مشکل حالات میں ہم کیسے سوچتے ہیں، محسوس کرتے ہیں اور ان کا مقابلہ کرتے ہیں اس پر منحصر کرتی ہے۔ ہمیں روزمرہ کہیں نہ کہیں چاہے کام کی جگہ ہو یا گھر، ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لیے کسی بھی انسان کے لیے ذہنی صحت اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ اس کی جسمانی صحت۔ مثبت گفتگو اور دوسروں کے ساتھ بات چیت کے دوران مثبت سوچ کو ذہن میں رکھنا ذہنی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ مثبت ذہنی فکر دماغی صحت کو توانا رکھتی ہے جس کے لیے درج ذیل نکات بہت فائدے کے حامل ہیں کہ ان پر عمل کر لینے سے ذہنی صحت اور مثبت سوچ پروان چڑھتی ہے۔ نہ صرف پروان چڑھتی ہے بلکہ نئے نئے آئیڈیاز کی آماجگاہ بنتی ہے۔

  • انسان کا اپنے مقصد حیات پر چلنا یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رہنا۔
  • خوشی ہو یا غم ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا۔
  • پر اخلاق ہونا اور لوگوں کے ساتھ اچھے معاشرتی تعلقات کا ہونا۔
  • زندگی کے معاملات میں نرم خو ہونا اور رویہ کو لچکدار رکھنا۔
  • کوشش کر کے ہر وقت باوضو رہنا۔
  • روزانہ مراقبہ کرنا۔
  • لوگوں پر اپنا مال خرچ کرنا۔
  • سوچ کو پاکیزہ رکھنا اور ظاہر و باطن سے باحیا رہنا۔
  • نبی کریم ﷺ کی سنتوں پر چلنا۔

حاضری

آج کی محفل میں جنید نوری، رافع نوری اور مظفر نوری نہیں آئے۔ تینوں میں سے کسی نے بھی اپنے نہ آنے کی کوئی اطلاع نہیں دی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے تمام ساتھیوں کے ساتھ آسانی فرمائے اور ان کی مشکلات حل فرمائے آمین ثم آمین!

شیخِ محترم ہمارے تصورات درست کرتے ہوئے

وقت پر آؤ

شیخ محترم نو بجے تشریف لے آئے۔ تمام ساتھیوں سے مصافحہ کرنے کے بعد ہم سے فرمانے لگے، "میں سوچ رہا ہوں ہفتے کی کلاس کا وقت نو بجے کر دوں۔ آٹھ بجے کا وقت میں نے عماد صاحب کی وجہ سے کیا ہوا تھا، اس لیے کہ وہ بہت دور سے آتے ہیں۔ آپ لوگوں کو تو نو بجے خیال آتا ہے کہ اب آستانے کے لیے نکلنا ہے۔ میں بھی پھر اس مسجد کی طرح اوقات کر دیتا ہوں جہاں نماز کا وقت ڈیڑھ بجے لکھا ہوتا ہے اور ڈھائی بجے لوگوں کے آ جانے پر جماعت شروع ہوتی ہے۔ میں بھی یہی کرتا ہوں آٹھ بجے کا کہہ کر نو بجے کلاس شروع کر دیتا ہوں۔ پر میرا دل اس طرح کرنے پر مانتا نہیں ہے۔ اس لیے وقت پر آؤ اور وقت پر چلے جاؤ یہی بہتر ہے۔”

ہومیوپیتھک ڈاکٹر اور ایلو پیتھک ڈاکٹر میں فرق

شیخ محترم نے ہم سے سوال کیا، "کیا آپ لوگ ہومیو پیتھک ڈاکٹر اور ایلو پیتھک ڈاکٹر کا فرق جانتے ہیں؟” ہماری خاموشی پر شیخ محترم فرمانے لگے، "ہومیوپیتھک اس لیے کامیاب نہیں ہیں کیونکہ ان کے پاس گنتی کی بیماریوں کے علاج ہیں۔ بیماریوں کی گنتی لاتعداد ہے جب کہ ان کے پاس دس سے بارہ علاج موجود ہیں اور وہ اسی طریقہ علاج سے مریض کی ٹھیک کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ اوپر سے ہومیوپیتھی کا ماننا ہے کہ جس چیز کی وجہ سے بیماری لگی ہے اس بیماری کا علاج بھی اسی چیز سے ہوگا۔ ہومیوپیتھی کا بانی ایک درخت کے پاس بیٹھا تھا۔ اسے اس درخت کی شاخ یا پتے کی وجہ سے بخار ہو گیا۔ اس نے غور کیا تو یہ معلوم ہوا کہ اسے بخار اسی درخت کی وجہ سے ہوا ہے۔ مزید تحقیق کرنے پر اس نے اسی درخت سے دوا بنائی اور استعمال کی تو اس کا بخار جاتا رہا۔ اسی وجہ سے اس نے یہ کلیہ بنا لیا کہ ہر بیماری کا علاج یہ ہے کہ جس چیز کی وجہ سے بیماری لگی ہے اس کا علاج اسی سے کیا جائے۔ جزیے کو کلیہ بنانا حماقت تھی بس یہی غلطی ہومیوپیتھک میں ہے۔

اگر وہ یہ کہہ دیتا کہ کئی بیماریوں کا علاج اس کے ماخذ سے ہے تو بھی گنجائش تھی لیکن اس نے یہ کہہ کر غلطی کر دی کہ ہر بیماری کا علاج اس میں ہے کہ جس جگہ وہ سے لگی ہے اسی سے علاج کیا جائے۔ ہومیوپیتھک والوں کی کوئی لیبارٹری نہیں ہے۔ جب کہ ایلو پیتھک ڈاکٹرز کو لیبارٹری سپورٹ کرتی ہے۔ ایلوپیتھک ڈاکٹر جسم کی ہر بیماری پر مسلسل ریسرچ کرتے رہتے ہیں۔ لیاقت نیشنل ہسپتال میں روزانہ ایسے کریٹیکل کیس یا بیماری ڈاکٹرز کا پینل بیٹھتا ہے اور اس بیماری کے علاج کے لیے آپس میں بہترین تجاویز پیش کی جاتی ہیں اس کے بعد ڈاکٹرز راؤنڈ پر نکلتے ہیں۔ ہومیوپیتھی کا علاج سست روی کا شکار ہے جس کی وجہ سے لوگ زیادہ تر ایلوپیتھک کی طرف بھاگتے ہیں۔ ایلو پیتھک ڈاکٹرز جسم کے پرزے پرزے آپریشن کرنا جانتے ہیں جب کہ ہومیو پیتھک والے جسم کو آپریٹ نہیں کر سکتے۔ ساری دنیا میں نمبر ون ڈاکٹرز ایلوپیتھک ہیں۔”

ڈاکٹر رفیق صاحب

شیخ محترم ہمیں ڈیرے کے پرانے ساتھی کے بارے میں بڑی محبت سے بتاتے ہوئے فرمانے لگے، "ڈاکٹر رفیق۔۔۔ درمیانے قد، مضبوط اعصاب اور صاف ستھری رنگت کے مالک تھے۔ بہت ہی شفیق اور نرم خو انسان تھے۔ جناح اسپتال میں سرکاری ڈاکٹر تھے۔ ایک دن وہ مجھے اپنی جناح اسپتال کی آپ بیتی سنانے لگے، "اسپتال کے کچھ با اثر لوگوں نے ڈاکٹروں کو کہا کہ جتنی بھی دوائیاں اور سامان ہسپتال میں آتا ہے اس میں سے ڈنڈی مار کر ہمیں دے دیا کریں۔ میں نے صاف انکار کر دیا کہ میں یہ غلط کام کبھی نہیں کروں گا۔” ان لوگوں نے مجھے یہ دھمکی دی کہ سوچ لو! نہ ماننے کا انجام بہت برا ہوگا۔ میں نے کہہ دیا کہ مجھے پرواہ نہیں انجام کی، لیکن میں یہ غلط کام ہرگز نہیں کروں گا۔

وہ لوگ بہت زیادہ سیاسی اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ اسی دن سرکار نے مجھے سسپنشن لیٹر دے کر مجھے جناح اسپتال سے برطرف کر دیا گیا۔ ڈاکٹر کی برطرفی کا مطلب ہے کہ وہ پرائیویٹ پریکٹس بھی نہیں کر سکتا اور اسے سرکار سے تنخواہ بھی نہیں ملے گی۔ دس سے بارہ سال گزر گئے میں ڈاکٹر ہو کر بھی ڈاکٹر والی پریکٹس نہ کرسکا۔ ایک دن میری ملاقات اعظم صاحب سے ہو گئی۔ میں نے انہیں اپنا مسئلہ بتایا۔ اعظم صاحب نے مجھے درود خضری سوا لاکھ نکالنے کا وظیفہ عنایت فرمایا۔ ابھی وظیفہ مکمل ہونے میں چند دن ہی باقی رہ گئے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرا سسپنشن ختم ہو گیا۔ مجھے میرے عہدے پر واپس بحال کر دیا گیا اور بارہ سال کی ساری رکی ہوئی تنخواہ مجھے سرکار سے پوری پوری مل گئی۔

میں نے اعظم صاحب سے یہ خواہش ظاہر کی میں آپ کے مرشد کریم سے ملنا چاہتا ہوں۔ اعظم صاحب کہنے لگے، "ٹھیک ہے عرس قریب ہے ساتھ چلتے ہیں۔” ڈاکٹر رفیق صاحب جب ڈیرے پہنچے اور حضرت صاحب سے ملے تو ان کے دیوانے ہو گئے۔ اکثر ان کے سامنے بیٹھے بیٹھے رو پڑتے تھے ان کی محبت میں۔ حضرت صاحب بھی ڈاکٹر صاحب سے محبت کرنے لگے۔ حضرت صاحب کے وصال کے موقع پر ڈاکٹر صاحب سب ساتھیوں سے کہنے لگے مجھے رونا نہیں آ رہا ہے میرے حضرت صاحب چلے گئے ہیں۔ اور اس بات پر مجھے مزید رونا آ رہا ہے کہ میرے آنسو کیوں نہیں نکل رہے ہیں؟

شیخ محترم یہاں فرمانے لگے، "حضرت صاحب کا وصال چاند کی 18 ذوالج، 25 مارچ سن 2000 عیسوی کو ہوا۔ جیسے ہی مجھے یہ خبر ملی میرے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ بہت مشکلوں سے سفر طے کر کے میں جب ڈیرے پر پہنچا تو دل غم کی شدت سے پھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ حضرت صاحب کی تدفین ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر رفیق صاحب جو سب سے کہہ رہے تھے کہ میرے آنسو نہیں نکل رہے ہیں۔ جیسے ہی مجھ سے گلے لگے، گلے لگ کر اتنا روئے اتنا روئے کہ برسات کی جھڑی سی لگ گئی۔ میری کوئی اوقات نہیں ہے لیکن حضرت صاحب ڈیرے پر دکھانا چاہتے تھے کہ سلیم صاحب کی ان کی نگاہ میں کیا اہمیت ہے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب حضرت صاحب حیات تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو نہر میں نہانے کا بہت شوق تھا۔ کراچی میں نہر کی سہولت نہیں تھی اسی لیے جب بھی ڈیرے آتے تو نہر میں نہانے کے لیے ضرور جاتے۔ کبھی کپڑوں سمیت کبھی پانچے اوپر چڑھا کر نہر میں اتر جاتے تھے۔ ایک دن ڈاکٹر صاحب مجھے لے کر نہر پر نہانے کے لئے چل پڑے۔ نہر میں اترنے کے بعد مجھے سے پوچھنے لگے، "سلیم صاحب کیا آپ جانتے ہیں کہ آج کل حضرت صاحب کی توجہ کس چیز پر ہے؟” میں نے جواب دیا، "نہیں ڈاکٹر صاحب میں نہیں جانتا۔” ڈاکٹر صاحب کہنے لگے، "حضرت صاحب نے کل مجھ سے دماغ کے بارے میں بہت سے سوال کیے جن کا میں جواب دیتا رہا۔ پھر حضرت صاحب کہنے لگے، "ڈاکٹر صاحب، یہ بتائیں انسانی دماغ 75 فیصد پر پہنچ جائے تو کیا ہوتا ہے؟” مجھے نہیں معلوم حضرت صاحب۔ پھر حضرت صاحب نے فرمایا، "دماغ جب 75 فیصد پر پہنچ جائے تو انسان کو غیبی مخلوقات دکھائی دینے لگتی ہیں۔ غیر مرئی قوتوں کو ادراک اسے ہونا شروع ہو جاتا ہے۔” ڈاکٹر صاحب کہنے لگے بعد میں جب میں نے اس بات کی تحقیق کی تو حضرت صاحب کی بات کو سو فیصد درست پایا۔

سرچ اور ریسرچ میں فرق

شیخ محترم نے ہم سے سوال کیا، "یہ بتائیں سرچ اور ریسرچ میں کیا فرق ہے؟” عماد نوری نے جواب دیا، "سرچ جنرل ہوتی ہے اور ریسرچ اسپیسیففک ہوتی ہے۔” عابد بھائی نے جواب دیا، "سرچ سے ہم کسی مطلوبہ حدف پر پہنچتے ہیں اور اس تحقیق میں ہم اس حدف پر پہنچ کر اس میں سے نتائج نکال کر مزید آگے بڑھتے ہیں۔” اسی طرح کے ملتے جلتے سے جواب مجھ سمیت تمام ساتھیوں نے دیے لیکن شیخ محترم کسی بھی جواب سے مطمئن نہیں ہوئے۔ ہمارے جواب سننے کے بعد فرمانے لگے، "سرچ وہ ہے جو پہلے سے موجود ہے۔ انسان اس تحقیق پر غور و خوض کرتا ہے۔ پھر اس تحقیق میں ڈوب کر انسان کے اپنے اندر سے جو نکلتا ہے جو اس سے پہلے دنیا میں نہیں پایا جاتا اسے ریسرچ کہتے ہیں۔ ریسرچ کا تعلق آپ کے اندر سے ہے۔ تحقیقی نتائج دل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد اس میں سے جو چندر مکھی ہیرا باہر آتا ہے وہ ریسرچ ہوتی ہے۔”

دماغ یاداشت کو کس طرح محفوظ کرتا ہے؟

شیخ محترم نے ہم سے سوال کیا، "کیا آپ جانتے ہیں کہ انسانی دماغ یاداشت کو کس طرح محفوظ کرتا ہے؟” ہمارے خاموش رہنے پر شیخ محترم ناراضگی کا اظہار فرماتے ہوئے کہنے لگے، "مجھے بہت غصہ آتا ہے آپ لوگوں کی خاموشی پر۔ کیا میں دیواروں سے سوال کر رہا ہوں۔ کچھ تو جواب دیا کریں ہاں یا ناں میں۔ گونگے بن کر مت بیٹھے رہا کریں۔”

انسانی دماغ اور کمپیوٹر کی ڈیٹا اسٹوریج میں بہت فرق ہے۔ کمپیوٹر معلومات کو ایک ہی جگہ اسٹور کرتا ہے جبکہ انسانی دماغ میں ایک ہی ڈیٹا سارے دماغ میں پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ انسانی دماغ کے اس طرح پھیلے ہوئے ڈیٹا کی صلاحیت کی وجہ سے ڈیٹا تک رسائی بہت جلد اور آسان ہو جاتی ہے۔ اس کا ایک اور فائدہ لچک کا حصول بھی ہے۔ یعنی اگر دماغ کے کچھ حصے کسی وجہ سے کام کرنا بند بھی کردیں تو اس لچک کی وجہ سے انسانی دماغ اپنا کام بخوبی کرتا رہتا ہے۔ اسی ڈیٹا اسٹوریج کے طریقے کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان نئی نئی چیزوں کی طرف مائل رہتا ہے۔

شیخ محترم مزید فرمانے لگے، "ایک ہی ڈیٹا کا انسانی دماغ میں یوں پھیلنا آپ کو کس شے کی یاد دلاتا ہے؟ چلیں میں اشارہ دے دیتا ہوں قرآن مجید، اب تو بتا دیں؟ "ہمارے خاموش رہنے پر شیخ محترم فرمانے لگے، "قرآن مجید میں کوئی بھی ایک موضوع پورے قرآن میں پھیلا ہوا ہے بالکل ہمارے دماغ کی طرح۔ حضرت صاحب کی دماغ پر ریسرچ اور دماغ کا بالکل قرآن مجید کی طرح ڈیٹا پھیلا کر محفوظ کرنا، ان دونوں باتوں نے مجھے آمادہ کیا کہ میں دماغ پر ریسرچ کروں۔ ان شاءاللہ جلد ہی اس پر میری تحریر عین سویرا پر شائع ہو جائے گی۔”

پیغام

آج کی احوالِ محفل ہمیں دماغ کتنی عظیم نعمت ہے اس کا درس دے رہی ہے۔ ہمارا دماغ پوری کائنات ہے۔ اگر انسان صرف اسی دماغ پر غور کر لے تو اللہ تعالیٰ سے شدید محبت کرنے لگ جائے۔ اگلی محفل کے احوال تک اجازت فی امان اللہ!


Characters: 9335
Words:2000

2 thoughts on “چھبیسویں محفل

  1. بہترین اور حسب توقع شاندار اصلاحی پوسٹ، سٹرڈے کی کلاس میں حضرت صاحب ہماری ہر طرح سے اصلاح فرماتے ہیں اور ان مسائل و جزئیات پر بیان کیا جاتا ہے جن پر عام طور پر بات نہیں ہوپاتی، ہمیں حضرت صاحب کی اجازت ہوتی ہے کہ کوئی بھی سوال جو ہمیں کنفیوژن میں ڈال دے ہم حضرت صاحب سے بلاجھجک پوچھ سکتے ہیں اسی لئے ہم حضرت صاحب سے کھل کر بات کرتے ہیں، وجاہت کا لفظ بہ لفظ احوال محفل تحریر کی صورت میں پیش کرنا اس کار خیر میں وجاہت کا بہت بڑا حصہ ہے اللّٰہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے آمین ثم آمین۔

    Liked by 3 people

تبصرہ کریں