نورا



Time to read:7 minutes

 

کیا بات ہے نور محمد، کیا سوچ رہا ہے؟ خیر دین سر جھکائے نور محمد کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے چارپائی پر اس کے برابر بیٹھ گیا۔ نور محمد نے آسمان کی طرف منہ کرکے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بولا،    یار خیر دین! میں کچھ دن پہلے سیالکو ٹ گیا تھا، عشاء کی نماز کے بعد وہاں کی مسجد میں مولانا ضیاء الحق قادری صاحب کا میلاد کے سلسلے میں بیان تھا، یار کتنا محبت بھرا بیان تھا ان کا، پوری مسجد کے لوگ اشکبار تھے، کیا سماں تھا، محفل پر نور کی چادر تن گئی تھی۔ بے شک میرے نبی کا ذکر ہے ہی اتنا سوہنا، خیر دین جذبات سے لبریز آواز میں بولا۔ یار میرا بھی دل چاہتا ہے ہمارے گاؤں وہاڑی میں میلاد کی محفل ہو، نور محمد نے بے چینی سے اپنے دل کی بات کہی۔ یہ خواہش سن کر خیر دین دکھی دل سے بولا: یہ آرزو تو سب کی ہے، لیکن تو تو جانتا ہے یہاں ہمارے چند گھروں کے سوا سب قادیانی ہیں وہ یہ نہیں ہونے دیں گے۔ یار خیر دین ایک بات کہوں؟ نور محمد لجاجت سے بولا۔ ہاں بول، خیر دین نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا۔ سالکوٹ میں محفل کے بعد میں نے مولانا صاحب سے ملاقات کی اور وہاڑی میں محفل کی دعوت دی جو انہوں نے قبول فرمالی اب وہ اس ماہ کی اٹھائیس تاریخ کو تشریف لا رہے ہیں۔ خیر دین کچھ دیر تک حیرت سے نظریں جھکائے نور محمد کو تکتا رہا پھر آہستہ سے اس کا ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے بولا: چل تو نے اب بول ہی دیا ہے تو اللہ کوئی راہ بھی نکال دے گا۔

رات کی تاریکی میں اس نے سگریٹ کے دو کش لگائے اور دیوار کی اونچائی کا اندازہ لگایا۔ آخری لمبا کش کھینچ کر اس نے سگریٹ کو ایک طرف اچھال دیا، بندوق کندھے پر لٹکا کر وہ دیوار کے نزدیک آیا، اچھل کر دیوار کا سرا پکڑا اور کھینچ کر خود کو دیوار پر چڑھا لیا، یہاں اس کا لمبا قد اس کے لیے معاون ثابت ہوا۔ چند سیکنڈ دیوار پر بیٹھنے کے بعد وہ ہلکی سی دھپ کی آواز کے ساتھ دوسری طرف کود گیا۔ اب وہ دبے پاؤں ایک مخصوص کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا، دروازے کے پاس پہنچ کر اس نے ہینڈل گھمایا اور آہستہ سے دروازے کو اندر کی طرف دھکیلا، تھوڑا سا دروازہ کھلا تو اس نے اندر کا جائزہ لیا، زیرو پاور کے بلب کی روشنی میں اس نے دیکھا کہ پلنگ پر کوئی سو رہا ہے، وہ دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوا، پلنگ کے قریب پہنچ کر اس نے بندوق کندھے سے اتار کر ہاتھ میں پکڑ لی، سونے والے کی پیٹھ اس کی طرف تھی، اس نے بندوق کی نالی بے دردی سے سوتے ہوئے شخص کی کمر میں گھونپی، وہ لیٹے لیٹے اچھلا اور فوراً کروٹ لے کر سیدھا ہوا، سیدھے ہوتے ہی اس کی نظر چھ فٹ کے اس آدمی پر پڑی جس کے ہاتھ میں بندوق تھی اور اس کا چوڑا سینہ اس کی طاقت اور ہمت کی گواہی دے رہا تھا، جسے دیکھ کر بیدار ہونے والے شخص کی گھگھی بندھ گئی، تم۔۔۔۔ کو۔۔۔۔ن۔۔۔۔ ہو؟ اس کے ہونٹ تھر تھرائے اور کپکپاتی ہوئی آواز برآمد ہوئی۔ بندوق بردار نے اپنا بایاں پاؤں اٹھا کر پلنگ پر رکھا، بائیں ہاتھ میں پکڑی بندوق کی نال کا رخ اس کی پیشانی کی طرف کیا، دائیں ہاتھ سے بندوق کا گھوڑا چڑھایا اور ہاتھ بڑھا کر اپنے چہرے سے پگڑی کا سرا کھول دیا، چہرے پر نظر پڑتے ہی پلنگ پر موجود شخص باقاعدہ کانپنے لگا، پسینہ اس کے ماتھے سے بہہ نکلا، گھبرا کر بولا: نورا تو۔۔۔ نورا مسکرایا اور اپنی گھنی مونچھوں پر ہاتھ پھیر کر بولا: نورا وی ڈاکو، مرزا وی ڈاکو۔ تو مسلماناں نوں لٹدا اے، میں تینوں لٹن آیا۔

نور محمد نے اپنے تمام دوستوں کو میلاد کی خبر دے دی تھی جسے سن کر وہ خوش بھی تھے اور خوفزدہ بھی۔ کل 28 تاریخ تھی، انتظامات کے سلسلے میں مشورے کے لیے سب مل کر بیٹھے تھے کہ جانے کیسے چوہدری مرزا کو بھنک پڑ گئی، وہ اپنے سات آٹھ کمینوں سمیت وہاں پہنچ گیا اور پہنچتے ہی دھاڑا: سنا ہے کوئی مولوی آ رہا ہے؟ یاد رکھو یہاں آکر کسی بھی مولوی نے تقریر کی تو کسی کی عزت سلامت نہیں رہے گی، ہر سر سے چادر کھینچ لی جائے گی۔

جیسے ہی مولانا ضیاء الحق قادری اسٹیشن پر اترے، خیر دین نے بڑھکر ان کے گلے میں ہار ڈالا اور ان کے ہاتھ چومے، پھر نور محمد نے ان کے ہاتھ چوم کر ایک لفافہ ان کی خدمت میں پیش کیا اور ہاتھ باندھ کر، نظریں جھکا کر شرمندگی سے بولا: مولانا صاحب آپ کی بڑی مہربانی آپ تشریف لائے، اب آپ واپس تشریف لے جائیں ہم میلاد نہیں کروا سکتے۔ وجہ؟ مولانا صاحب نے حیرانگی سے پوچھا۔ نور محمد کوئی بہانہ کرنے ہی والا تھا کہ خیر دین بول پڑا: دراصل مولانا صاحب ہمارے گاؤں میں چند گھر ہمارے ہیں باقی گاؤں کے چوہدری سمیت سب قادیانی ہیں، اور اس نے دھمکی دی ہے کہ اگر میلاد ہوا تو تمہاری عزتیں محفوظ نہیں رہیں گی۔ مولانا صاحب نے لفافہ واپس کیا اور جوش سے بولے: اب تو بات ختم نبوت اور نبی پاک کی حرمت پر آگئی ہے، میلاد ضرور ہوگا۔ لیکن حضرت آپ تو چلے جائیں گے بھگتنا ہمیں پڑے گا، خیر دین گھبرا کر بولا۔ یہ بتاؤ گاؤں کے آس پاس کوئی سونٹے والا ہے جس کی دہشت ہو، مولانا صاحب کچھ سوچ کر بولے۔ ہاں نورا ڈاکو کی بڑی دہشت ہے، نور محمد کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولا۔ مولانا صاحب نے تانگہ رکوایا اور اس میں سوار ہوتے ہوئے بولے، مجھے اس کے پاس لے چلو۔

مولانا صاحب کمرے میں داخل ہوئے تو نورا چارپائی پر نیم دراز تھا۔ مولانا صاحب کو دیکھتے ہی مسکرا کر بولا: خیر تو اے، مولوی کیویں آ گئے نے؟ نورا بات نبی پاک کی ناموس تک آ پہنچی ہے، تم کچھ کرو گے؟ مولانا نے ڈپٹ کر پوچھا۔ یہ سنتے ہی نورا کے جسم میں بجلی سی دوڑ گئی، وہ ایک جھٹکے سے کھڑا ہوگیا، بندوق کندھے پر لٹکا کر ایک ایک لفظ چپاتے ہوئے بولا: مولوی! اسی ڈاکو ضرور آں پر بے غیرت نئی آں۔

مولانا صاحب ممبر پر تشریف فرما ہوئے تو نورے نے پوچھا: کننی دیر تقریر کرنی اے؟ یہی کوئی دیڑھ گھنٹہ، مولوی صاحب نے جواب دیا۔ تسی اج تین گھنٹے کرو، یہ کہتے ہوئے نورا مسجد کے مین گیٹ کی طرف چل پڑا۔ مولانا صاحب کے بیان کے بعد لوگوں کے دل خوشی اور سرور سے جھوم رہے تھے، نورا اندر آیا اور مائیک ہاتھ میں لے کر رعب دار آواز میں اعلان کیا: اس جلسے کے بعد اگر کسی نے مسلمانوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو یاد رکھے وہ نورا سے نہیں بچ سکتا۔

وہاڑی کے جلسے کے کئی مہینوں بعد سیالکوٹ کے ایک گھر کے دروازے پر دستک ہوتی ہے، ضیاء الحق قادری صاحب کچھ دیر پہلے ہی فجر کی نماز پڑھا کر آئے ہیں، دروازہ کھولا تو سامنے ایک لمبے چوڑے شخص کو کھڑے پایا، سر پر عمامہ سجائے، خوبصورت سی داڑھی اور پاکیزہ جہرے کے ساتھ۔ ادب سے سلام کیا، مولانا صاحب نے جواب دیا۔ مجھے پہچانا؟ اس شخص نے پوچھا، نہیں! مولوی صاحب نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ مولوی صاحب! میں نورا آں۔ مولانا صاحب کو ایک دم سب کچھ یاد آگیا، آگے بڑھکر نورا کو سینے سے لگایا۔ نورا کے قابو کیے ہوئے آنسوؤں نے اپنا بند توڑ دیا، مولانا صاحب نے اندر لے جاکر اسے بٹھایا تو وہ روتے ہوئے بولا: میں آپ کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں، آپ کی وجہ سے میری زندگی بدل گئی، جلسے کے بعد میں گھر آ کر سویا تو خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: نورا! تو نے ہماری ناموس پر پہرہ دیا، اللہ نے تیرے پچھلے سارے گناہ معاف فرما دیے ہیں۔ مولانا کے آنسو بھی ٹپ ٹپ گرنے لگے اور ان کی ہچکیاں بھی نورے کی ہچکیوں کے ساتھ  مل گئیں۔

 

8 thoughts on “نورا

تبصرہ کریں