چلتے ہو تو چلیے


Time to read: 5 minutes

نام تو ان کا احمد میاں ہے لیکن دوستوں اور قریب کے جاننے والوں میں اود بلاؤ کے نام سے مشہور ہیں, اس نام کی وجہ تو معلوم نہیں لیکن محتاط اندازے کے مطابق شاید ان کی ہیت کی وجہ سے یہ نام پڑا_ کافی پھیلے ہوئے اور تھل تھل کرتے جسم پر قدرے چھوٹا گول چہرہ, باریک لمبی مونچھیں ان پر بھی تاؤ دیا ہوا, بال پتلے, سیدھے, سر کے ساتھ چپکے ہوئے اور کانوں کی لو تک آئے ہوئے_ خیر سے زندگی کی چالیس خزائیں دیکھ چکے ہیں, ان کا ایک ہی شوق ہے جو جنون کی حد کو چھو رہا ہے اور وہ ہے شادی_ خاندان بھر کے لوگ کوشش کرتے ہیں لیکن ہر بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے, ہر ناکامی پر ان کا منہ مزید اود بلاؤ جیسا ہوجاتا ہے_ باپ کی چھوٹی سی ہوٹل ہے, جس میں وہ خود ویٹر تھے, باپ کے دنیا سے جانے کے بعد اب گلے پر بیٹھتے ہیں_

آج ان کے گھر میں کافی چہل پہل ہے, احمد میاں بھی پان منہ میں دبائے ادھر سے ادھر پھر رہے ہیں, خوشی میں جب بانچھیں کھلتیں تو پیک کی پتلی سی لکیر ہونٹوں کے کنارے سے ہوتی ہوئی تھوڈی تک آتی جسے وہ بار بار ہاتھ کی ہتھیلی سے صاف کرتے_ عقدہ یہ کھلا کہ ایک جگہ رشتے کی بات چلی تھی, آج لڑکی والوں نے لڑکے کو اپنے گھر بلایا ہے_

شام 5 بجے چچا افتخار اپنی پرانی ہائی روف لے کر پہنچ گئے,ڈرائیور کی پچھلی سیٹ پر چاچی بصیراً, بہن جن کی گود میں کٹے جیسا صحت مند بچہ ہے اور توے جیسی رنگت والے بہنوئی, ایک سیٹ پر فضلو خالہ, برابر والی سیٹ پر رئیسہ مامی, سب سے پچھلی سیٹ پر بڑے بھائی ساجد میاں اور ان کی بیگم براجمان ہیں_ احمد میاں کا انتظار ہو رہا ہے, کچھ دیر بعد ساجد میاں نے گاڑی کی کھڑکی سے آواز لگائی, ابے آجا پانی میں چلا گیا ہے کیا؟ اللہ اللہ کرکے احمد میاں گھر سے برآمد ہوئے, کریم کلر کی چائنہ بوسکی کی شلوار قمیض, براؤن کھوسے, ہاتھ میں کریم کلر کا ہی رومال جس کے کناروں پر سنہری پٹی ہے, حسبِ عادت کلے میں پان دبائے ہوئے, کچھ دیر کھڑے شرمائے پھر پان کی پیک تھوک کر اگلی سیٹ پر بیٹھ گئے, اس سے پہلے کہ گاڑی روانہ ہوتی بہن نے اپنا بوجھ احمد میاں کی گود میں دے دیا_ گاڑی روانہ ہوئی, بچے کو جیسے ہی شک ہوتا پیچھے کچھ کھایا جا رہا ہے تو وہ چیخ کر ایک ہی لفظ بولتا ” انگو ” پھر جب تک کوئی چیز اس کے منہ میں نہیں آتی, مسلسل مچلتا_ بچہ بار بار بوسکی سے پھسل کر نیچے جاتا جسے احمد میاں کھینچ کر اوپر کرتے, جس کی وجہ سے کچھ دیر بعد ہی ان کی ٹانگیں سن اور ہاتھ درد کرنے لگے_ساجد میاں نے شاپر سے کیلے نکالے, شاپر کی ہلکی سی پھڑپھڑاہٹ ہوئی, کٹا ڈکارا ” انگو ” اور مچلنے لگا, آخر کیلا اس کے منہ میں آیا جسے اس نے کچھ کھایا اور کچھ احمد میاں کی بوسکی پر مسل دیا_ کیلے کا گچھا فضلو خالہ کے پاس آیا کہ ایک کیلا توڑ لیں, انہوں نے کیلوں کی طرف ہاتھ بڑھایا اور منمناتی ہوئی آواز میں بولیں: جب سے تیرے خالو گئے ہیں کچھ اچھا نہیں لگے, موا حلق سے اترے ہی نہیں, یہ کہکر چار کیلے توڑے, ہچکیوں اور سسکیوں کے درمیان چٹ کر گئیں_

سفر جاری تھا کہ رئیسہ مامی کی بھرائی ہوئی آواز گونجی, ارے! میرا بلڈ پریسر ڈاؤن ہوریا ہے, یہ کہکر سر ایک طرف ڈھلکا دیا, گاڑی میں شور شرابا مچ گیا, چچا نے گاڑی ایک طرف لگائی اور بھاگ کر سامنے دکان سے جوس کا پیکٹ لے آئے جسے مامی نے فوراً پینا شروع کردیا, کٹا پھر ڈکارا ” انگو ” اور اس کے ساتھ ہی اپنی ٹانگوں سے احمد میاں کے کپڑوں کی ایسی تیسی پھیرنے لگا, چچا بے چارے پھر بھاگ کر گئے اور دوسرا جوس لے کر آئے, کٹے کی ناک میں جوس کی نکیل پڑی تو خاموش ہوا_

آخر کار یہ قافلہ لڑکی والوں کے محلے میں پہنچ گیا, گلی تنگ ہونے کی وجہ سے گاڑی باہر ہی پارک کردی گئی, سب لوگ اتر کر پیدل لڑکی کے گھر کی طرف روانہ ہوئے, دو چار قدم ہی چلے تھے کہ فضلو خالہ پلو آنکھوں پر رکھ کر سسکنے لگیں پھر ہائے کی صدا دی اور دل پر ہاتھ مار کر بولیں: ابھی تیرے خالو ہوتے تو کتنے خوش ہوتے, لڑکی والوں کا گھر آچکا تھا دروازے پر دستک کے ساتھ ہی رئیسہ مامی لہرا کر زمین پر بیٹھیں اور ” میرا بلڈ پریسر لو ہو ریا ہے ” کہتے ہوئے ذبح ہوئی مرغی کی طرح لیٹ گئیں, اتنے میں دروازہ کھلا, سب سے آگے لڑکی کا باپ, دائیں طرف لڑکی کی ماں اور پیچھے گھر کے دوسرے افراد جھانک کر دیکھ رہے تھے, احمد میاں کی فیملی اس وقت اس حال میں تھی کہ احمد میاں کی بوسکی پیٹ تک چڑھی ہوئی جس پر کیلے اور کھانے پینے کی دوسری چیزوں کی باقیات چپکی ہوئیں, گود میں کٹے جیسا کالا بھاری بھرکم بچہ جس کے بوجھ سے سانس پھولی ہوئی تھی، فضلو خالہ اکھڑوں بیٹھیں آنکھوں پر دوپٹہ رکھے سسک رہیں تھیں، ساجد میاں ان کے برابر میں بیٹھے دلاسے دے رہے تھے اور ان کی بیگم رئیسہ مامی کو جو آنکھیں موندھے گلی کے بیچوں بیچ پڑیں تھیں اپنی چادر سے ہوا دے رہی تھیں، واحد شخص جو اطمینان سے کھڑا تھا جس کے صرف دانت چمکتے ہوئے نظر آرہے تھے، وہ تھے احمد میاں کے بہنوئی۔ لڑکی کا باپ چند لمحے حیرت سے دیکھتا رہا پھر ایک قدم آگے بڑھکر بولا؛ آپ لوگوں نے غلط دروازے پر دستک دی ہے، اسپتال مین سڑک کے بائیں جانب ہے، یہ کہکر کھٹاک سے دروازہ بند کردیا۔

قافلہ ایک بار پھر نامراد روانہ ہوا، مین سڑک کے بائیں جانب احمد میاں کی نظر پڑی تو ایک بڑا سا بورڈ نظر آیا جس پر جلی حرفوں سے تحریر تھا ” جانوروں کا اسپتال "۔ یہ دیکھکر احمد میاں کا منہ مزید اود بلاؤ جیسا ہوگیا۔

Characters:4450

Words:995

6 thoughts on “چلتے ہو تو چلیے

تبصرہ کریں