ہند سے عرب تک


مکے کے قریب وادی میں قریش بکریاں چراتے تھے, وادی میں تیز بارش کی وجہ سے نالے بھر کر چل رہے تھے, ایک چھوٹا بچہ نالے کے کنارے کھڑا تھا, بارش کی بوندیں اس کے سیاہ بالوں سے موتیوں کی مانند اس کے صبیح گالوں پر گر رہی تھیں, بکریاں کود کر نالے کے اس پار جا چکیں تھیں, اتنے میں ایک جوان مختصر سے قافلے کے ساتھ وہاں آیا, وہ ہندوستان کے گاؤں بھٹنڈا سے تجارت کی غرض سے مکے سے گزر کر شام جارہا تھا_ اس نے ایک چاند چہرہ بچے کو نالے کے کنارے کھڑے دیکھا تو اشارے سے پوچھا کہ نالا پار کرنا ہے؟ بچہ نے اقرار میں گردن ہلائی تو اس جوان نے بچے کو کندھے پر بٹھایا اور نالا پار کرکے دوسرے کنارے پر اتار دیا, بچے کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا, ہزاروں تارے اس کے گالوں پر جھلملانے لگے, بچے نے فصیح عربی میں دعا دی ” اللہ تجھے سلامت رکھے”_ یہ دعا سات بار دہرائی, بچے کے منہ سے یہ دعا سن کر جوان کے دل میں اس کی عظمت بیٹھ گئی اور اس نے پہچان لیا یہ کوئی عام بچہ نہیں ہے_

کئی سال بیت گئے, ہندوستان کے گاؤں بھٹنڈا میں کچھ لوگ گھر کے باہر بیٹھے باتیں کر رہے ہیں, آسمان پر چودہویں کا چاند چمک رہا تھا, اچانک لوگوں نے ایک عجیب منظر دیکھا چاند دو ٹکڑے ہوگیا اور کچھ دیر بعد دوبارہ مل گیا, لوگ حیرت سے پلکیں جھپکانا بھول گئے, ہوش آیا تو ایک دوسرے سے تصدیق کی کہ وہم ہے یا حقیقت! ہر ایک نے اس واقعے کی تصدیق کی, رتن ہندی کا دل بے چین ہوگیا, کئی پنڈت اور جوگیوں سے پتا کیا لیکن کوئی بھی تسلی بخش جواب نہ دے سکا_

رتن ہندی کو معلوم ہوا عرب کے کچھ تاجر آئے ہیں, رتن ان کے پاس پہنچا اور شق القمر کا تذکرہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ مکے میں قریش کا ایک جوان ہے جس نے نبوت کا دعوٰی کیا ہے, کسی کے معجزہ طلب کرنے پر اس جوان نے انگشت کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کر دہے تھے, یہ سنکر رتن کا دل بے چین ہوگیا اور اس نے مکے کے سفر کا ارادہ کرلیا_

کئی سال بعد آج رتن کی دلی مراد بر آئی اور وہ مکے کو روانہ ہوگیا, مکے پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ جس کی تلاش میں آیا ہے وہ مدینے ہجرت فرما چکے ہیں, سفر پھر شروع ہوا جس کا اختتام مدینے میں ہوا_

مدینے پہنچ کر آپ کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا مسجدِ نبوی میں تشریف فرما ہیں_ رتن دھڑکتے دل کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا, دیکھتے ہی پہچان گیا, آپ ستاروں کے جھرمٹ میں چودہویں کے چاند کی مانند جلوہ افروز تھے, آپ رتن کو دیکھ کر مسکرائے اور آنے کا سبب دریافت فرمایا, رتن نے کہا مجھے بھی کوئ معجزہ دکھادیں تو آپ پر ایمان لے آؤں, آپ نے مسکرا کر فرمایا ” رتن تیرے لیے بچپن کا وہ واقعہ کافی نہیں جب تو نے اپنے کندھے پر بٹھاکر نالا پار کرایا تھا اور میں نے خوش ہوکر سات بار تجھے دعا دی تھی_” یہ سننا تھا کہ رتن قدموں میں گر گیا اور اسلام قبول کرلیا_

رتن ہندی پندرہ دن آپ کی بارگاہ میں حاضر رہے, پھر دوبارہ ہندوستان تشریف لے آئے_ آپ نے سات بار دعا دی تھی جس کی برکت سے ان کی عمر سات سو برس ہوئی_

جس عمل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دل خوش ہوجائے وہی مقبول ہے اور وہی نیکی ہے اور جس عمل سے میرے نبی کا دل رنجیدہ ہوجائے وہی بدی ہے_ یہی معاملہ پیر صادق کے ساتھ ہے کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہے_

10 thoughts on “ہند سے عرب تک

تبصرہ کریں