دل کے تار


بوڑھے کی رعشہ زدہ انگلیاں بربط کے تاروں کی طرف بڑھیں, وہ ان تاروں کو چھیڑ کر طرب کا کوئی گیت گانا چاہتا تھا لیکن جب اس کی انگلیوں نے حرکت کی تو طرب کی بجائے سوز بھرا ساز بربط کے تاروں سے برآمد ہوا, وہ اپنے آہ بھرتے دل کی تال, سازِ سوز سے کچھ دیر ملاتا رہا, جب دل آہ کے ساتھ فغاں بھی کرنے لگا تو بے چین ہوکر بوڑھے نے بربط ایک طرف رکھ دیا اور آنکھیں بند کرکے اپنا سر درخت کے تنے سے ٹکادیا_ رنگ برنگے دائرے اس کی بند آنکھوں کے سامنے پھرنے لگے, ایک دائرے نے پھیل کر بوڑھے کو اپنے حصار میں لے لیا, اب بوڑھا جوان تھا, دنیا اس کے ساز اور گیت کی دیوانی تھی_ ایک مرتبہ جب وہ بربط کے سروں کے ساتھ کوئی دل آویز گیت گا رہا تھا تو اسکی نظر سامنے سے گزرتے ہوئے ایک نورانی اور باوقار شخص پر پڑی, ایک لمحے کو آنکھیں چار ہوئیں تو پروقار شخص مسکراتے ہوئے گزر گئے, پہلی بار اس کا ہاتھ کانپا تھا اور آواز لہرائی تھی_ وہ اکثر ان کو دیکھ کر راستہ بدل لیتا تھا_ ان کی آواز میں جانے کیسا جادو تھا کہ جمِ غفیر ان کے گرد اکھٹا ہوتا اور ہر آنکھ اشکبار ہوتی_

بوڑھے نے آنکھیں کھولیں توان میں بھی آنسو تھے_ اچانک چشمِ تصور میں وہی پروقار شخصیت ابھری, بوڑھے کی سسکیاں بلند ہونے لگیں, اس نے قریب کی قبر پر سر رکھ دیا, اس کے دل نے صدا دی: ” اے میرے رب! ہر ایک میرے گانے کا دیوانہ تھا, لوگ میرے گرد جمع رہتے تھے, دنیا کی ہر نعمت میرے پاس تھی, اب میں بوڑھا ہوگیا تو سب نے ساتھ چھوڑ دیا, دنیا کی نعمتوں نے بھی منہ موڑ لیا, تنہا اس قبرستان میں پڑا ہوں, تیرے سوا کون ہے جو اس بوڑھے کی فریاد سنے؟ اپنے سفید بالوں کے ساتھ تیری بارگاہ میں حاضر ہوں_ جوانی عیش و عشرت میں گزاری, میرے رب! میں بھی تجھ سے بخشش کی امید رکھتا ہوں, مجھ ناتواں پر رحم فرما, تجھے اس نیک ہستی کا واسطہ دیتا ہوں جو بغداد کے لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے_” بوڑھے کی آواز بھرا گئی, اس نے اپنا سر ریت پر ڈال دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا_

لوگ سحر زدہ سے ہوکر اس نورانی ہستی کا بیان سن رہے تھے_ بیان سخاوت اور صلہ رحمی پر تھا, اچانک آپ نے فرمایا: ” مجھے سو دینار درکار ہیں_” کئی لوگ دینار لے کر آگے بڑھے, آپ نے ایک شخص کے دینار قبول فرمائے اور خادم کو بلاکر حکم دیا ” مقبرہ شونیز پر جاؤ وہاں تمہیں ایک بوڑھا بربط والا ملے گا, اسے یہ دینار دے کر میرے پاس لے آؤ_”

خادم قبرستان پہنچا تو بوڑھا قبر پر سر ٹکائے آنکھیں موندے پڑا تھا_ خادم نے سلام کیا تو بوڑھے نے آنکھیں کھولیں, خادم نے دینار پیش کیے, بوڑھا فرطِ جذبات سے چیخ اٹھا ” خدا کی قسم! پورے بغداد میں شیخ عبدالقادر سے بڑھکر کوئی سخی نہیں_”

بوڑھا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا, آپ نے کھڑے ہوکر دونوں ہاتھ پھیلادیے, بوڑھا دوڑتا ہوا آیا اور آپ کے قدموں میں گرگیا_ آپ نے اسے اٹھایا اور سینے سے لگایا, دل کے تار جو برسوں سے خاموش پڑے تھے یکبارگی بج اٹھے, شیخ عبدالقادر جیلانی کے سینے سے لگنے والا جو کچھ دیر پہلے مٹی تھا, سونا ہوگیا_

16 thoughts on “دل کے تار

      1. چاچا چاہد ذرا چ تو گنیں

        ایک بار ایک چاہنے والے نے چندویس اچھی چیزیں چاہیں جنہیں وہ چھوٹے جملوں میں نہیں بیان کر سکتا تھا، لہٰذا اس نے ایک بہت بڑی جملہ بنائی جس میں چ تین سو پچاس بار آیا تھا۔ یہ جملہ در حقیقت ایک کہانی کی شکل میں تھی جو کہ ایک بہت بڑے شاعر نے لکھی تھی۔

        "چچا نے چاند کی چمک کی چاندنی میں چپی چپکی چمکتی چیزوں کو چھوٹے چھوٹے چھپٹے چمٹے چہرے پر چپکایا اور چائے پر چوٹیوں کی چڑچڑاہٹ کے ساتھ چینی چمچوں کے زور سے چربہ چکنائی کے چکنوں کو چاہت کرنے والوں کے لئے چکنائی کے چکنے کی چیزیں چن کر چولہے میں چھوٹا چڑائی بھرنے والے چوکیدار چمٹے کے سامنے چھوڑ دیں جس کے بعد وہ چینی کے چمچے کے ساتھ چندویس بار چکنے کے چکنے کو چکنائی کے چکنوں سے چمکانے لگے جس سے چکنائی کی خوشبو اور ذائقہ بڑھ جاتا ہے۔”

        Liked by 3 people

          1. ایک بار پھر 🙌

            "چچا نے چاند کی چمک کی چاندنی میں چپی چپکی چمکتی چیزوں کو چھوٹے چھوٹے چھپٹے چمٹے چہرے پر چپکایا اور چائے پر چوٹیوں کی چڑچڑاہٹ کے ساتھ چینی چمچوں کے زور سے چربہ چکنائی کے چکنوں کو چاہت کرنے والوں کے لئے چکنائی کے چکنے کی چیزیں چن کر چولہے میں چھوٹا چڑائی بھرنے والے چوکیدار چمٹے کے سامنے چھوڑ دیں جس کے بعد وہ چینی کے چمچے کے ساتھ چندویس بار چکنے کے چکنے کو چکنائی کے چکنوں سے چمکانے لگے جس سے چکنائی کی خوشبو اور ذائقہ بڑھ جاتا ہے۔”

            Liked by 2 people

تبصرہ کریں