میرے تایا


Time to read:5 minutes

نام تو ان کا فقیر محمد تھا لیکن خاندان بھر میں ٹھیکیدار مشہور تھے_ غلطی پر ٹوکنا ان کی عادت تھی چاہے کوئی بھی کیوں نہ ہو, صابن کو صابن دانی میں رکھنے کا انداز ہو, مٹکے پر گلاس رکھنے کا انداز ہو یا مٹکے سے پانی نکالنے کا انداز سب ان کا اپنا ہونا چاہیے ورنہ جھڑک اس بیچارے کا مقدر ہوتی_

حجام سے لے کر درزی تک سب کاریگروں کو حکم دے رکھا تھا کہ کس طرح بال کاٹنے ہیں, کس طرح کے کپڑے سینے ہیں_ آپ نائی کے پاس جائیں لاکھ کہیں, لاکھ غصہ دکھائیں لیکن بال اس نے فوجی کٹ ہی کاٹنے ہیں, درزی سے لاکھ بار کہیں پتلون کے پائنچے اتنے رکھ دینا لیکن جب سل کر آتی تو من و عن اتنے ہی ہوتے جتنے اسے ہدایت جاری کی گئی تھی_صرف دو شخصیات تھیں جو ان سے اپنی بات منوا سکتی تھیں, ایک میری تائی اماں اور دوسری میری بڑی بہن_تائی اماں فرماتی ہیں کہ ہم نے کئی سال بنا کسی چوں و چراں کے خدمت کی ہے تب یہ مقام ملا ہے_

دادا نے انڈیا میں ہی دوسری شادی کرلی تھی, وہاں سے ہجرت کرکے نواب شاہ آئے تو حویلی کے بدلے حویلی, کارخانے کی جگہ سینما اور زمینوں کے بدلے زمین ملی_ٹھیکیداری پھر سے شروع کردی گئی, پہلی دادی کا انتقال ہوچکا تھا، دادا بیمار ہوئے تو دوسری دادی نے پر پرزے نکالے اور سب کچھ اپنے قبضے میں کرلیاـ دادا کا انتقال ہوا تو والد صاحب, چچا اور تایا کو خالی ہاتھ گھر سے نکلنا پڑا, سب اپنی فیملی کو لے کر کراچی آگئے اور بڑا بورڈ کے مقام پر جھگی ڈال لی پھر تایا نے ایک مکان لے لیا، جہاں سب رہنے لگے_

نوکری تایا نے کبھی کی نہیں, تو تائی پریشان کیوں نہ رہتیں؟ ریلوے اسٹیشن کی طرف کسی بزرگ نے ڈیرا لگایا اور جلد ہی "پشاوری مولوی صاحب” کے نام سے مشہور ہوئے تو تائی بھی ان کے پاس گئیں اور اپنے شوہر کی نوکری کی درخواست کی, مولوی صاحب نے فرمایا: میں تعویذ دے تو دوں لیکن وہ پہنے گا نہیں_ تائی نے کہا: وہ میرا کام ہے_ تعویذ لکھ دیا گیا, جب پہنانے کا وقت آیا تو تایا اڑ گئے, لیکن تائی نے رو دھو کر تعویذ پہنا ہی دیا_

تایا ہر کام میں ماہر تھے, ایک مرتبہ سائٹ کے علاقے سے گزر رہے تھے کہ ایک صاحب کو گاڑی کے کھلے ہوئے بونٹ کے پاس پریشان کھڑے دیکھا, گاڑی خراب ہوگئی تھی، تایا نے ٹھیک کردی, شیخ صاحب بہت خوش ہوئے اور ایک ادارے میں نوکری کی پیشکش کردی, تایا نے حسبِ معمول انکار کردیا, باتوں باتوں میں شیخ صاحب نے گھر کا پتا لے لیا, دوسرے دن سرکاری نوکری کی درخواست کے فارم کے ساتھ گھر پہنچےِ، خود فارم بھرا زبردستی تایا سے دستخط لیے اور اگلے دن آکر اپنے ساتھ لے گئے اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں ملازم کروا دیا_

ان کی اپنی کوئی اولاد تھی نہیں اس لیے جب کمپنی کی طرف سے مکان ملا تو ہماری فیملی بھی انہی کے ساتھ آگئی_ تعلیم کو بہت پسند کرتے تھے, مجھے یاد ہے جب بڑے بھائی نے گریجویشن کے بعد جاب کا ذکر کیا تو بہت ناراض ہوئے اور کہا ابھی پڑھ! کیا ضرورت ہے تجھے نوکری کی؟

گرمیوں کی راتوں میں جب بھی آنکھ کھلی تو میں نے تایا کو کبھی ہاتھ والے پنکھے سے سب بچوں پر ہوا کرتے ہوئے دیکھا تو کبھی بڑی سی اسٹیل کی پلیٹ پر کڑوا تیل لگائے مچھروں کا شکار کرتے ہوئےــ

گھر میں کار آئی تو چھوٹے بھائی سے میں نے بھی سیکھ لی, ایک مرتبہ مجھ سے کہا: چل فلاں جگہ چلنا ہے, اور کار کی چابی مجھے دیتے ہوئے کہا: چلا, میں نے خوشی خوشی گاڑی اسٹارٹ کی اور روانہ ہوئے, گیئر بدلا تو جھڑکے, اوہو! اب اس طرح گیئر ڈالتے ہیں کیا؟ کلچ دبا پھر اپنے ہاتھ سے سیکنڈ گیئر ڈال کر تھرڈ میں اسی طرح ڈالا جیسا میں نے ڈالا تھا, تھوڑا آگے گئے میں نے گیئر بدلا تو جھڑکے: اوہو! گیئر توڑے گا کیا؟ پھر اپنے دستِ مبارک سے دوبارہ اسی طرح ڈالا جیسے میں نے ڈالا تھا, ایک جگہ بریک لگایا تو پھر جھڑک کر بولے: لوگوں کی کمر توڑے گا کیا؟ میں نے اسی وقت سڑک کے بیچ میں گاڑی نیوٹرل کی اور اتر کر بھاگ گیا_

والدہ کا میرے بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا, تائی کو اماں اور تایا کو ابا کہتے تھے, میری شادی ہوئی تو ایک مکان جو تایا نے لے رکھا تھا وہاں شفٹ ہوگئے, قریب تھا روز آتے, ہر چیز چیک کرتے, بلب فیوز ہوتا تو بدل دیتے, موٹر خراب ہوتی تو خود ٹھیک کر دیتے, گیزر خراب ہوتا تو خود ٹھیک کرتے- کافی بوڑھے ہوگئے اور کام نہیں ہوتا تو اپنے نئے سلے ہوئے کپڑوں کی فل آستین کاٹ کر ہاف کردیتے اور کبھی قمیض کی کالر کاٹ کر بنا کالر کے بنا لیتے_ کبھی ایمرجنسی میں کہیں جانا ہوتا اور میں جلدی گھر پہنچتا کہ بائیک لے کر نکلوں گا, گھر پہنچ کر دیکھتا تو تایا پوری بائیک کا ایک ایک حصہ کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں, مجھے دیکھ کر کہتے: اتنے دنوں سے گھسیٹ رہا ہے, پتا نہیں چلتا کیا فلاں فلاں چیز خراب ہے؟ صحیح کر رہا ہوں، جلدی سے آم کا شربت بنا کر لا_

غرض تایا جب تک رہے کبھی کسی الیکڑیشن, پلمبر یا مکینک کو بلانا نہیں پڑا_ جب میں نے پہلی دفعہ کار لی تو کئی دنوں تک خواب میں آتے رہے, اسٹیرنگ پر بیٹھتے اور بہت خوش ہوتے_ جب گاڑی میں کوئی خرابی ہوتی تو تایا بہت یاد آتے_ آخری وقت جب اسپتال میں تھے تو مجھے اپنے قریب بلاکر پوچھتے, اب تک کتنا خرچا ہوگیا ہے؟ میں کہتا: ابا میرا کوئی خرچا نہیں ہورہا یہ آپ ہی کے پیسے ہیں_ جس رات ان کا انتقال ہوا اس کے دوسرے دن سے ہی کبھی موٹر خراب ہوجاتی, کبھی گیزر اور کبھی فرج_

واقعی بزرگ گھر کی رحمت اور برکت ہیں_

9 thoughts on “میرے تایا

  1. چاچا جی، آپ کے تایا نے ہی آپ کو گدھا بنایا یے، نہ وہ سارے کام خود کرتے اور نہ ہی آپ گدھا بنتے۔ تایا جی نے آپ پر ظلم کیا ہے کہ آپ کے حصے کے کام بھی وہ خود کرگئے اور آپ کو گدھے کا گدھا چھوڑ گئے۔ واقعی کسی انگریز نے درست ہی کہا ہے کہ اچھا استاد درحقیقت برا استاد ہوتا ہے کہ ساری آسانیاں شاگردوں کو دے جاتا ہے، انہیں اپنا دماغ چلانے کی عادت ہی نہیں ہوتی، اور تخلیقی صلاحتیں ان میں کبھی پیدا ہی نہیں ہوپاتیں۔

    پسند کریں

    1. ہر وقت مت ہانکا کرو تمہاری اس بڑ میں کوئی دم نہیں, کبھی کبھی تک کی بات بھی کرلینی چاہیے, صحت کے لیے اچھا ہوتا- مجھے تو تمہاری ڈگری بھی جعلی لگتی ہے اگر واقعی ہے تو_ تلوار, قلم بچہ اور پاگل دونوں پکڑ لیتے ہیں لیکن کس وقت اور کس طرح چلانا ہے یہ کوئی بہادر یا عقلمند ہی جانتا ہے_

      پسند کریں

تبصرہ کریں