بیوی کے نام خط


Time to read:4 minutes

پیاری زوجہ محترمہ

مورخہ 25 فروری 2023

السلام علیکم

امید ہے خیریت سے ہوگی۔ میرا حال مت پوچھو بلکہ سچ پوچھو تو پردیس میں جو چیز سب سے زیادہ تڑپاتی ہے وہ تمہاری یاد ہے۔تمہیں میری طرف سے بہت سی غلط فہمیاں ہیں جنہیں آج دور کرنا چاہتا ہوں۔ خیال اس لیے آیا کہ پچھلی رات سے بخار ہے اور پطرس بخاری کی طرح میرا دل بھی بیماری میں بہت نرم ہوجاتا ہے, اپنے تمام گناہ یاد آنے لگتے ہیں جو کرچکا ہوں اور جو کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں وہ سب۔

تمہاری جو سب سے بڑی غلط فہمی ہے وہ یہ ہے کہ میں بے حس ہوں اور مجھے تمہاری تکلیف کا کوئی احساس نہیں, یہ سراسر جھوٹ ہے اور تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں بیماری میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور جس کا خاندان اولیاکرام کا خاندان ہو میں اس سے جھوٹ کیسے بول سکتا ہوں۔

تمہیں یاد ہے جب تمہارے ماموں گھر میں آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے کہ کرم ہوا اور مقامِ حیرت میں ڈوب گئے, دس سال ایک ہی جگہ اسی حال میں بیٹھے رہے پھر جب مقامِ حیرت سے باہر آئے اور پالتی کو آلتی سے نکالنے کی کوشش کی تو ٹانگیں اکڑ کر جام ہوگئیں تھیں, خاندان بھر میں راہِ سلوک سے ناآشنائی کی بنا پر شور اٹھا ” او ہو! غفار کی ٹانگیں بیکار ہوگئی ہیں. ” تو تم کتنا پریشان تھیں, اللہ گواہ ہے پریشان میں بھی ہوا تھا لیکن مسکرایا صرف اس بات پر تھا کہ دس سال تک مقامِ حیرت میں اللہ نے کیسے کیسے انعامات کیے ہونگے۔

قسم سے تکلیف کا احساس مجھے اس وقت بھی ہوا تھا جب تمہارے چچا اپنا داہنا ہاتھ اپنی گدی کی طرف لے گئے تھے اور اسی وقت جذب کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ مقامِ حیرت میں غرق ہوگئے اور پندرہ سال تک ہاتھ گدی پر ہی رہا, پھر جب سیر ہوگئے تو ہاتھ گدی سے ہٹانے کی کوشش کی تو خاندان بھر کے دنیاداروں میں شور اٹھا ” اوہو! بابو کے ہاتھ نے کام چھوڑ دیا۔ ” جس کی چاہو قسم لے لو میں اس وقت بھی یہی سوچ کر مسکرایا تھا کہ اللہ جس کو چاہے عطا کردے۔

یاد کرو تم اس وقت کتنا غصہ ہوئی تھیں جب تمہارے خالو گھر کے دروازے پر اکڑوں بیٹھے بیٹھے سفرِ حیرت کے راہی ہوئے اور کم و پیش آٹھ سال بعد جب اٹھنے کی کوشش کی تو خاندان بھر کے نا واقفِ حال لوگوں میں شور اٹھا ” اوہو! بَڑبْڑے کے گھٹنوں نے کام چھوڑ دیا۔ ” یہ سنکر میں باقاعدہ ہنس پڑا تھا, ہنسی مجھے اس بات پر آئی تھی جس میں تھوڑی حسد بھی شامل تھی کہ اللہ کی اللہ ہی جانے, ساری ولایت ایک ہی خاندان کو عطا فرمادی۔

یاد کرو جب تمہارے بھائی پپو نے ہونٹوں پر قفلِ مدینہ لگا لیا تھا اور ایک لفظ بولنے کا بھی روادار نہ تھا, نکاح کے وقت جب مولوی صاحب نے پوچھا ” قبول ہے ” تو پورے شامیانے کی سانسیں رک گئیں اور سناٹا چھا گیا تھا, تمہارا دل بے چین ہوا, دل کو دل سے راہ ہوتی ہے, میں فوراً آگے بڑھا, مولوی صاحب جھک کر کان اس کے منہ سے لگائے بیٹھے تھے پھر سر اٹھایا حیرت سے چند سیکنڈ میری طرف دیکھا, منمناتی اور کپکپاتی آواز میں گویا ہوئے ” مبا…ر…ک ہو دولہے…. نے قبو…ل کرلیا۔ ” اب میں تو بزرگوں کا ماننے والا ہوں, مولوی صاحب کی بات پر کیسے اعتبار نہ کرتا فوراً قریب کھڑے دولہن کے بھائی سے گلے مل کر مبارک باد دی, پھر کہیں جاکر شامیانے کی سانسیں بحال ہوئیں اور تمہارے چہرے کا تناؤ ختم ہوا۔

پیاری بیگم! دل سے ساری غلط فہمیاں نکال دو اور یقین رکھو کہ تمہاری خوشی میری خوشی اور تمہارا غم میرا غم ہے۔ تمہاری ساری غلط فہمیوں کی توجہی پیش کرچکا ہوں, اگر کچھ بھول گیا ہوں تو معاف کردینا۔ تھوڑے کو بہت سمجھو

درونِ دیدہ گر نیم موست بسیار است

آخر اپنے خط کا اختتام اس شعر پر کرتا ہوں

جب کوئی بات بگڑ جائے مشکل کوئی پڑ جائے

تم دینا ساتھ میرا او میرے ہمنوا!

خدا حافظ

فقط صرف تمہارا شوہر

شاہد

15 thoughts on “بیوی کے نام خط

  1. شاہد بھائی بہت شاندار خط تحریر فرمایا ہے۔ پورے خط میں محبوب سے محبت کا انوکھا انداز پیش کیا گیا۔ کم از کم میرے لیے تو انوکھا تھا۔ اس محبت میں مزاح بھی تھا، درد بھی تھا، چاہت بھی تھی۔ نکاح قبول کرنے والی داستان بھی بڑی طنز و مزاح سے بھرپور تھی۔

    بہت بہت بہترین پوسٹ۔

    Liked by 3 people

تبصرہ کریں