عین سویرا


منہ پر پانی پڑتے ہی اسکی پلکھیں تھرتھرائیں, دماغ کا کچھ حصہ جاگتے ہی شدت کی پیاس کے ساتھ اسے اپنے پپڑی جمے ہونٹوں پر نمی کا احساس ہوا جس پر اس نے اپنی سوکھی زبان پھیر کر تر کرنے کی ناکام کوشش کی. دماغ پوری طرح بیدار ہوا تو جلن کی شدید لہر اس کے پاؤں کے تلووں سے اٹھی جس کی کھال قمچی کی ضربوں سے ادھڑ کر لہولہان ہوچکی تھی. وہ ایک بینچ پر پڑا تھا جسکی لمبائی اسکی پنڈلیوں تک اور چوڑائی بمشکل اس کی کمر تک رہی ہوگی.اس نے سر اٹھاکر اٹھنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوکر اپنا سر نیچے ڈال دیا اور آنکھیں موندھ لیں. دھندلے دھندلے سائے نمودار ہوئے جنہوں نے کچھ دیر بعد واضح شکلیں ڈھال لیں, ایک چھوٹا بچہ بھاگتا ہوا آرہا ہے, بچے کی نظریں سامنے جمی ہیں جسے دیکھکر وہ کھل کھلا کر ہنس رہا ہے. ایک چاند سا چہرہ جس کے گرد مامتا کا پاکیزہ نورانی ہالا ہے اپنی بانہیں پھیلائے مسکراتے ہوئے بچے کا بانہوں میں آنے کا انتظار کررہی ہے. دو بازو اسکی بغلوں میں داخل ہوئے اور ایک جھٹکے سے اسے بٹھادیا, ابھی وہ اپنی ناتواں آنکھیں پوری طرح کھول بھی نہ پایا تھا کہ کھڑا کردیا گیا, اسے ایسا لگا جیسے پاؤں کے نیچے انگارے رکھے ہوں, ایک درد بھری آہ کے بعد دوبارہ آنکھیں بھینچ لیں.

دونوں مسٹنڈے اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے آئے. اندھیرا پھیل چکا تھا, صحرا کی تند بادِ صرصر کی جگہ نرم اور قدرے ٹھنڈی ہوا نے لے لی تھی. دونوں مسٹنڈوں میں سے ایک نے اسے کمر سے پکڑ کر بیٹھے ہوئے اونٹ کی پیٹھ پر پیٹ کے بل ڈال دیا جیسے وہ کوئی بیکار سامان ہو.

اونٹ کھڑے کردیئے گئے اور قافلہ روانہ ہوا, اسے ایک بار پھر پیاس کی شدت کا احساس ہوا اور اسی پیاس کی شدت میں وہی چاند چہرہ, نورانی ہالے والا اس کے خیال میں ابھرا. اس کے دل میں ایک یاد اور ایک آرزو اب تک زندہ تھی, یاد اس کی ماں کی اور آرزو آزادی کی. جب سے ہوش سنبھالا تو خود کو اس صحرا میں پایا جہاں کڑی دوپہر میں بادِ سموم ریت کے ٹیلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی اور یہ ظالم لوگ غلاموں کو. اس کی زندگی میں اندھیرا ہی اندھیرا تھا, نام کی صبح بھی صبحِ کاذب تھی. اس کے باوجود وہ اپنی آرزو نہ دبا سکا جو کسی نہ کسی بہانے ابھر آتی, تلووں کی کھال کا اڈھر جانا اسی آرزو کا شاخسانہ تھا.

اونٹ کسی وجہ سے بدکا تھا جس کی وجہ سے وہ ریت کے ایک چھوٹے سے ٹیلے پر گرا. وہ شاید سب سے پچھلے اونٹ پر تھا اسی لیے کسی کو احساس نہ ہوا, ویسے بھی وہ ایک پرانے اور بوسیدہ قالین کی مانند تھا. وہ کچھ دیر آنکھیں بند کیے پڑا رہا جب جرس کی آواز مدہم ہوگئی تو اس نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں, ایک بار پھر پیاس کی شدت کا احساس ہوا اس کے حلق میں کانٹے چبھنے لگے وہ پیٹھ کے بل لیٹ گیا. چاند اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ستاروں کی محفل میں آچکا تھا, اس نے چاند کی نرم نرم کرنیں اپنے اندر جذب کرنا شروع کردیں. اسی چاند سے وہی چاند چہرہ ابھرا, مامتا بھرے پاکیزہ نورانی ہالے والا, کرنیں اسے ماں کی بانہیں محسوس ہوئیں, چند قطرے اس کی ویران آنکھوں سے نمودار ہوئے دل سے اک ہوک اٹھی ” اللہ…….ماں…”.

وہ چاند کو تکتا رہا, رفتہ رفتہ چاند کے چہرے پر بال اگنے لگے جس نے سفید نورانی داڑھی کی صورت اختیار کرلی پھر ایک چہرہ ابھرا, وہی چاند چہرہ جس کے گرد مامتا کا پاکیزہ نورانی ہالا تھا, اس نور نے مسکراکر اس کی گردن کے نیچے ہاتھ ڈالا اور اس کا سر اوپر کرکے پانی کا پیالہ اس کے منہ سے لگادیا, جیسے جیسے سلسبیل اس کے حلق سے اترتا گیا اس کے بنجر جسم کو سرسبز کرتا گیا, اس نے نظر اٹھا کر اس چاند چہرے کو دیکھا اور ہوش سے بیگانہ ہوگیا.

ہوش آیا تو اسے اپنے سر پر پیار بھرے لمس کا احساس ہوا, کوئی اس کے الجھے ہوئے بالوں میں دھیرے دھیرے ہاتھ پھیر رہا تھا, اس نے اپنی آنکھیں بدستور بند رکھیں, ایک بار پھر اسے اپنی ماں شدت سے یاد آئی, آنسو نکلتے ہی میل جمے گالوں میں جذب ہوگئے اس کے دل نے صدا دی…ماں…., ” ہم تیری ماں ہی ہیں رے ” میٹھی سی آواز اس کے کانوں میں پڑی تو اس نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں, نیم وا آنکھوں سے اسے ایک چہرہ نظر آیا, صبحِ کاذب کے وقت بھی اس پر صبح کا نور تھا, اس نے پٹ سے پوری آنکھیں کھول دیں اور ٹکٹکی باندھ کر ان بزرگ کو دیکھنے لگا, نورانی چہرے پر تبسم ابھرا تو اس کا دل بھی مسکرا اٹھا, برسوں بعد اسے مسکرانے کی خواہش ہوئی, اس کے ہونٹ بے ہنگم انداز میں پھیلے تو نورانی چہرے کی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی.

آپ کون ہیں؟ اس نے پوچھا, صحرا کی ماں. دھیمے انداز میں جواب آیا. اس کا دل زور سے دھڑکا, بے چین ہوکر بستر پر اسطرح بیٹھ گیا جیسے اسے کبھی ناتوانی تھی ہی نہیں, اس کی نگاہ بزرگ کی نگاہوں سے ٹکرائیں, دل کے آتش فشاں نے جوش مارا پھر اس طرح ان کے گلے گیا جسے بازار میں صبح کا بچھڑا بچہ شام کو اپنی بے چین ماں سے ملے, سینے سے سینہ ملا تو سینے کا آتش فشاں ابل پڑا, آنسو لاوا بنکر اس کی سرخ آنکھوں سے بہنے لگے. صبحِ صادق نے یہ منظر دیکھنے کے لیے صبحِ کاذب کو پیچھے دھکیل دیا اور سورج کی بادشاہی کا نقارہ بجادیا, برسوں پر محیط رات اپنی موت آپ مر گئی اور عین سویرا ہوگیا.


Characters:4314
Words:953

9 thoughts on “عین سویرا

تبصرہ کریں