گلشن


عجب اک راز ہے یہ رازِ گلشن
گلوں نے بھر دیئے خاروں سے دامن

وہی گلچیں ہوا گلشن کا دشمن
بھرا جس نے گلوں سے اپنا دامن

۱نوکھا ہے یہاں دستورِ گلشن
کلی مر جھا گئی آتے ہی جوبن

جھکی جاتی ہیں آرائش سے شاخیں
کہیں گر ہی نہ جائیں سب نشیمن

نمو پائے دلوں میں آدمیت
کبھی تو یوں بھی برسے کھل کے ساون


کبھی بے رنگ تتلی بھی تو شاہد
بنے گی اعتبارِ حسنِ گلشن

***

19 thoughts on “گلشن

تبصرہ کریں