عجب اک راز ہے یہ رازِ گلشن
گلوں نے بھر دیئے خاروں سے دامن
وہی گلچیں ہوا گلشن کا دشمن
بھرا جس نے گلوں سے اپنا دامن
۱نوکھا ہے یہاں دستورِ گلشن
کلی مر جھا گئی آتے ہی جوبن
جھکی جاتی ہیں آرائش سے شاخیں
کہیں گر ہی نہ جائیں سب نشیمن
نمو پائے دلوں میں آدمیت
کبھی تو یوں بھی برسے کھل کے ساون
کبھی بے رنگ تتلی بھی تو شاہد
بنے گی اعتبارِ حسنِ گلشن
***
کتنی پیاری غزل ہے۔ دل میں پھول کی خوشبو بکھیرتی ہوئی۔ دلنشین کلی اگاتی ہوئی۔ شاعر کے محبوب کی یاد دلاتی ہوئی۔ محبت کی نغمگی کا احساس دلاتی ہوئی۔ گلشن میں بہار کی آمد کا رنگ بکھیرتی ہوئی۔
بہت شاندار
پسند کریںLiked by 3 people
واہ واہ وجاہت کیا خوب کمنٹ کیا ہے۔
پسند کریںLiked by 2 people
بہت بہت شکریہ
پسند کریںLiked by 1 person