قزاق لڑکی: باب ۳


Words: 4184

ہُو آئی ڈی ووٹی

ہائی ایس کافی دور نکل گئی تھی اور اب تو سڑک کی پیچیدگیوں میں گم بھی ہوچکی تھی۔ ان کی کوسٹر بھی اسٹارٹ ہوئی اور جلد ہی فراٹے بھرنے لگی۔

ابھی کوسٹر نے بمشکل پندرہ منٹ کا سفر ہی طے کیا ہوگا کہ اس کی رفتار کم ہونے لگی۔ عشرت نے حیرانی سے ماموں جان کو دیکھا جو کوسٹر ڈرائیو کر رہے تھے، پھر سڑک پر ایک نگاہ ڈالی۔ سڑک پر دو مچھیرے لفٹ کے لیے کھڑے تھے۔

’’ارے دیوانے تو نہیں ہوگئے؟‘‘ ممانی جان نے حیرت سے کہا ’’اب جگہ ہی کہاں بچی ہے کسی کو بٹھانے کی۔‘‘

’’فشر ولیج کے مچھیرے ہیں بیگم۔ بیچاروں کو اس وقت کوئی دوسری گاڑی نہیں ملے گی۔ ویسے بھی ابھی پیچھے دو سیٹیں پوری خالی پڑی ہیں۔ تم بچیوں کو پیچھے بھیج دو۔‘‘

’’تمہارا تو دماغ سٹھیا گیا ہے۔‘‘ ممانی جان بڑبڑانے لگیں، ’’بچیوں کے ہمراہ کبھی کسی کو لفٹ نہیں دیا کرتے۔‘‘

’’خدا ترسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اب چلی بھی جاوٗ۔‘‘

’’جارہی ہوں ۔۔۔ آؤ رخشندہ اور فرخندہ۔۔۔ دیکھ لینا تمہارے ابا کسی دن سر پکڑ کر روئیں گے۔‘‘

دونوں بچیاں اٹھ گئیں۔ اسی وقت باہر سے لفٹ لینے والوں نے آواز لگائی ’’مائی باپ، خدا تمہاری مرادیں پوری کرے، اتل باڑی جانا ہے۔‘‘

’’خیر آجاؤ۔۔۔ ہم تمہیں اس کے قریب ہی ڈراپ کردیں گے۔‘‘

’’سائیں تم بڑے قلندر آدمی ہو۔‘‘ دونوں مچھیروں نے اندر آتے ہوئے کہا۔ اللہ تمہیں خوش رکھے!

کوسٹر کا دروازہ جیسے ہی بند ہوا ماموں جان نے گاڑی چلا دی۔

اسی وقت شیر اکبر جان اٹھا تھا اور دونوں آدمیوں کو شک کی نظروں سے گھورنے لگا تھا۔ یہ صرف چند لمحوں کے لیے تھا۔ اس کے بعد وہ دوبارہ سیٹ پر دراز ہوچکا تھا۔

کوسٹر کے اسپیڈ و میٹر کی سوئی اسی اور پچاس کے درمیان تھرک رہی تھی۔ سڑک زیادہ تر سنسان رہی تھی اس وجہ سے عموماً گاڑیاں تیز ہی رکھی جاتی تھیں۔

’’ممانی جان۔۔۔ میرا دل گھبرا رہا ہے۔‘‘ عشرت نے دھیرے سے کہا۔

’’کیا کہا؟ ارے جب میں تمہاری عمر کی تھی تو دل گھبرانا تو کجا مجھے اس بات کی مطلق خبر نہ تھی کہ دل ہوتی کیا چیز ہے۔ پتا نہیں نئی نسل کو کیا ہوتا جارہا ہے؟ کبھی دل گھبراتا ہے کبھی دل بیٹھ جاتا ہے کبھی سر میں درد کبھی کمر میں چکھ۔ ارے کیا جوانی ایسی ہوتی ہے؟ اس جوانی سے تو ہمارا بڑھاپا ہی بھلا۔‘‘ وہ بھری بیٹھی تھیں۔ عشرت پر ہی برس پڑیں۔

عشرت کسمسا کر خاموش ہوگئی۔ یہ حقیقت تھی کہ اس کا جی گھبرا رہا تھا۔ سر الگ چکرا رہا تھا۔ لیکن وہ اس کیفیت کی وجہ سے بخوبی واقف تھی اس لیے خاموشی سے سیٹ کی پشت سے گردن لگا کرآنکھیں موند لیں۔

’’سائیں ہماری بات تو سنو۔‘‘ اچانک ایک مچھیرا بولا۔

’’سن رہا ہوں۔‘‘ ماموں سڑک سے نظر ہٹائے بغیر بولے۔

’’تمہارے سر پر ہمارا ریوالور ہے سائیں۔۔۔۔ نہ نہ، گھبرا کر پیچھے مت دیکھنا ورنہ اپنے ساتھ ہمیں بھی لے مرو گے۔‘‘

’’تم کیا چاہتے ہو؟ ہمارے پاس زیادہ کیش نہیں ہے۔‘‘ ماموں جان بھرائی ہوئی آواز میں بولے ’’ہمارے بارے میں تمہارا اندازہ غلظ نکلے گا۔ بمشکل پانچ ہزار ہی نکلیں گے۔‘‘

’’کیسی باتیں کرتے ہو سائیں۔۔۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہمارے پاس موجود ہے۔‘‘

’’پھر کیا چاہتے ہو؟‘‘

’’وہ چھوکرا کون ہے جو پیچھے سو رہا ہے؟‘‘ ایک مچھیرے نے سوال کیا۔

’’کیا اتنی جلدی بھول گیا اپنے باپ کو؟ میں تیری ماں کا خصم ہوں۔‘‘ شیر اکبر جان یکدم اٹھ کر بیٹھ گیا۔

’’بہت گرمی ہے تیری خون میں۔ اب اگر تو نے گالی دی تو سب ہی بھیانک موت مارے جاؤ گے۔ اور ہاں۔ اچھے بچوں کی طرح اپنا پستول ہمارے حوالے کردو ورنہ اس ڈرائیور کی گردن میں ہونے والا سوراخ تمہارے لیے دوسری دنیا کا دروازہ بن جائے گا۔‘‘

’’ارے دیکھ لی اپنی خدا ترسی۔‘‘ ممانی جان روہانسی ہو کر بولیں۔‘‘ اور لفٹ دو ان بچاروں کو۔ ناؤ دے ول لفٹ یو اپ ٹو دی اسکائی۔‘‘

’’چپ کر بڑھیا۔ ورنہ سب سے پہلے تیرا ہی کام تمام کردوں گا۔‘‘ دوسرے مچھیرے نے بھی اپنا ریوالور نکال لیا۔ پھر شیر اکبر کی طرف منہ کر کے بولا، ’’زندہ رہنا چاہتے ہو تو اپنا ریوالور میری طرف پھینک دو۔ خبردار کوئی چالاکی مت کرنا۔ ورنہ ہر ایک مارا جائے گا۔‘‘

عشرت کا خون خشک ہوگیا۔ صورتِحال ایسی تھی کہ شیر اکبر جان کچھ بھی کر گزرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ اگر وہ کوئی ایکشن لے بھی لیتا تو وہ لوگ اس کے ماموں جان کو گولیاں ماردیتے۔ اسی رفتار سے چلنے والی کوسٹر کے پرخچے اڑ جاتے۔

شیر اکبر جان نے خاموشی سے دونوں ریوالور نکالے اور ریوالور بردار کی طرف پھینک دئیے۔

ریوالور بردار نے فوراً ہی دونوں ریوالور اپنے قبضے میں کرلیے۔ پھر بولا ’’اب خاموشی سے چلتے ہوئے دروازے کی طرف آجاؤ۔‘‘

عشرت کا خون خشک ہوگیا۔ غالباً اس کی سمجھ میں آگیا تھا کہ ریوالور بردار شخص کا اگلا حکم کیا ہوگا۔

’’خبردار۔ کوئی چالاکی کرنے کی کوشش مت کرنا۔ ورنہ ہمیں اتنے سارے لوگوں کی جانیں ضائع جانے کا خوف ہوگا۔‘‘

’’تم چاہتے کیا ہو؟‘‘ شیر اکبر جان ٹہری ہوئی آواز میں بولا۔

’’تمہاری موت اور قزاق لڑکی۔۔۔۔۔۔۔‘‘

عشرت بری طرح اچھلی تھی۔ اس کی آنکھوں میں دنیا جہان میں دنیا جہان کا تحیر سما گیا تھا۔ قریب تھا کہ اس کی آنکھیں حلقوں سے ابلنے لگتیں۔

’’تم کیا سمجھتے ہو؟ ان معمولی کھلونوں سے میری جان لے سکو گے؟‘‘ شیر اکبر جان نے قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’غالباً تم نے صبح والے واقعے پر غور نہیں کیا۔‘‘

’’وہ لوگ بے وقوف تھے لیکن ہم بےوقوف نہیں ہیں۔‘‘ ریوالور بردار شخص کہنے لگا۔

’’سبحان اللہ! وہ ہنس پڑا۔‘‘ وہ بھی خوش فہم تھے اور تم بھی غلط فہمی میں مبتلا ہو۔۔‘‘

’’بکواس بند کر کالی چچھوندر کی اولاد‘‘ ریوالور بردار شخص ہنستے ہنستے غصے میں آگیا اور دہاڑ کر بولا، ’’میں صرف تین تک گنوں گا اگر تم نے اس عرصے میں گاڑی سے چھلانگ نہ لگائی تو تم سب کی موت کا باعث بن جاؤ گے۔‘‘

عشرت سناٹے میں آگئی تھی۔ اس کی خاطر شیر اکبر جان کو چلتی گاڑی سے چھلانگ لگانے کا حکم دیا جاریا تھا۔ گاڑی اسی کی رفتار سے دوڑ رہی تھی۔ ایسی صورت میں اگر شیر اکبر جان واقعی چلانگ لگا دیتا تو اس کی ہڈیوں کا بھی سُرمہ بن جاتا۔

’’جلدی کرو، میں گنتی گِن رہا ہوں۔‘‘ ریوالور بردار شخص پھر دہاڑا۔

شیر اکبر جان نے سر جھکا لیا ۔ عشرت سوچ رہی تھی کہ شیر اکبر جان چاہے کتنا بھی بہادر کیوں نہ ہو، آخر کم عمر ہے، وہ اتنی بھانک موت کو گلے کس طرح لگائے گا۔

’’ایک۔۔۔‘‘ ریوالور بردار شخص سفاک آواز میں بولا۔

شیر اکبر جان کا جھکا ہوا سر اٹھ گیا۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ ہتھیار ڈال چکا ہے۔

’’دو۔۔۔۔‘‘ سفاک آواز ایک بار پھر ابھری۔ لیکن اس سے پہلے کہ گنتی مکمل ہوجاتی عشرت یکلخت اپنی سیٹ سے کھڑی ہوئی۔

’’یہ ظلم ہے۔۔۔۔ صریحاً ظلم ہے۔‘‘ وہ اپنی پوری قوت سے چلائی تھی۔ ’’تمہیں قزاق لڑکی کی تلاش تھی، لے جاؤ قزاق لڑکی کو۔ اس غریب نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔‘‘

اچانک گولی چلی۔ عشرت دھپ سے سیٹ پر گر گئی۔ گولی کوسٹر کا پچھلا شیشہ توڑتے ہوئے باہر نکل گئی تھی۔

’’چھلانگ لگاؤ‘‘ اس بار دوسرا ریوالور بردار چلایا تھا۔

شیر اکبر جان دروازے کی چٹخنی کھولنے کے ارادے سے آگے بڑھا تھا۔ لیکن دروازے سے پہلے ہی اس طرح لڑکھڑایا تھا جیسے سچ مچ گر جائے گا۔ ریوالور بردار شخص اختیارانہ طور پر ٹھٹھکا۔ یہ صرف لمحہ بھر کے لیے ہوا تھا مگر شیر اکبر جان نے اسی ایک لمحے سے فائدہ اٹھالیا۔ اس کی لات اسی انداز میں اٹھی تھی جیسے کوئی ماسٹر کراٹے کلب میں شاگردوں کو سکھاتا ہے۔ لیکن دونوں ریوالور بردار شخص اس کی رینج میں آگئے۔ وہ تو ایک بجلی تھی جو دشمنوں کے سر پر چمکی تھی۔

شیر اکبر کی لات ایک ریوالور بردار کے کاندھے پر پڑی تھی۔ اس کی کِک میں جوانی کا زور تھا۔ لات کی زد میں آیا ہوا شخص اپنے ساتھی سے جا ٹکرایا۔ وہ اس جھٹکے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس وجہ سے فوراً گر پڑا۔ اس ہڑبونگ میں اس کے ریوالور سے ایک گولی نکلی جس نے وِنڈ اسکرین میں سوراخ کردیا۔

لمحاتی کھیل میں صرف پھرتی کام آتی ہے۔ اس کے سامنے جو شیر تنا کھڑا تھا اس نے ثابت کر دکھایا تھا کہ وہ واقعی شیر ہے۔ شیر اکبر جان نے پھرتی سے کوسٹر کا دروازہ کھولا اور گرے ہوئے شخص کو تیزی سے باہر پھینک دیا۔ پھر فوراً ہی دوسرے دشمن کے ہاتھ پر اپنا ستون جیسا پیر رکھ دیا۔ اگر وہ تھوڑی سی دیر کرتا تو وہ اسے گولی کا نشانہ بنا لیتا۔

گِرے ہوئے شخص نے مزاحمت کی لیکن شیر اکبر کے سامنے اس کی ایک نہ چلی۔ جب وہ مایوس ہوگیا تو خلافِ توقع شیر اکبر جان نے اپنا پیر ہٹا لیا۔

وہ تو موقع کی تلاش میں تھا۔ جیسے ہی وہ اسکے قدم کی بندش سے آزاد ہوا، فوراً ہی اپنی ریوالور لیے کھڑا ہوگیا۔ لیکن دوسرا لمحہ دشمن کے لیے زیادہ منحوس ثابت ہوا۔ شیر اکبر جان نے اس کے کھڑے ہوتے ہی اس کی کمر پر لات جمائی تھی۔ نتیجہ ظاہر تھا۔ ایک طویل چیخ کے ساتھ وہ بھی دروازے کے باہر جا پڑا۔ کوسٹر اسی رفتار سے چل رہی تھی۔

’’خس کم جہاں پاک!‘‘ ماموں کے حلق سے اطمینان کی ایک سانس نکلی۔ ’’جانے کیوں مجھے اب تک ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میں کوئی بھیانک خواب دیکھ رہا تھا۔‘‘

’’شکر ہے کہ آپ حواس باختہ نہیں ہوئے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کہیں آپ خدانخواستہ کوئی الٹی سیدھی حرکت نہ کر بیٹھیں۔‘‘

’’اب اتنا بھی ناسمجھ نہیں ہوں۔‘‘ ماموں جان مسکرائے تھے۔ ’’لیکن بھئی مان گیا کہ تم غضب کے انسان ہو۔ میں اگر تمہاری جگہ ہوتا تو یقیناً کوئی غلطی کر بیٹھتا۔‘‘

عشرت کی ممانی جان کو سکتہ ہوگیا تھا۔ گولیوں کی آوازوں اور شیشے کی کرچیوں نے ان کو دہشت اور پھر سکتے میں مبتلا کردیا تھا۔ جب وہ سکتے کی کیفیت سے ایک طویل جھرجھری لے کر باہر آئیں تو تھوڑی ہی دیر میں شیر اکبر جان کی بلائیں لینے لگیں۔ ’’تم کتنے کم عمر ہو لیکن کتنے بڑے بڑے کام کرجاتے ہو۔ تم شاید اندازہ بھی نہیں کرسکتےکہ تم نے کتنا بڑا کام کیا ہے۔ میں تمہارا یہ احسان زندگی بھر یاد رکھوں گی۔ تم واقعی شیر ہو۔‘‘

ادھر عشرت اس سوچ میں غلطاں تھی کہ آخر شیر اکبر جان ہے کیا بلا؟ کیوں میری وجہ سے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ لیتا ہے۔ یہ کون ہے؟ کون ہے؟ کون ہے؟ اس کے دماغ نے ایک ہی جملے کی رٹ لگادی۔

شیر اکبر جان ونڈ اسکرین میں ہونے والے سوراخ کو دیکھ رہا تھا۔ دیکھتے دیکھتے اچانک بولا ’’کیا آپ یہ نہیں سوچتے کہ ونڈ اسکرین میں ہونے والا یہ بدنما سوراخ ہمارے لیے مصیبت پیدا کرسکتا ہے؟‘

’’کیا مطلب؟‘‘ عشرت کے ماموں جان چونکے ۔

’’پانچ میل کے بعد ایک فوجی چوکی آنے والی ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ فوجی ہمیں بغیر پوچھ گچھ کے گزرنے دیں۔ وہ ضرور کوسٹر کی حالت دیکھ کر متوجہ ہوجائیں گے کیا کوئی دوسرا راستہ اختیار نہیں کی جاسکتا؟‘

’’لڑکے تم بہت دور تک دیکھتے ہو۔ واقعی فوجی چوکی پر ہمیں ضرور روکا جائے گا۔ ملٹری والے ہمیں بغیر پوچھ گچھ کے نہیں جانے دیں گے۔ ہم کوئی دوسرا راستہ بھی اختیار نہیں کرسکتے، لیکن ملٹری کی تم فکر نہ کرو، میں ان سے خوب نمٹ لوں گا۔ شہر کے اہم آفیسران سے میرے اچھے تعلقات ہیں!‘‘

’’گڈ‘‘ شیر اکبر جان مسکرایا۔ ’’اس قزاق لڑکی نے ہمیں کتنی مشکلوں میں پھنسا دیا ہے اور خود کتنے آرام سے سیٹ پر جم کر بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘

’’قزاق لڑکی؟ ‘‘ ممانی جان حیرت سے گویا ہوئیں۔ ’’ارے ہاں وہ بدمعاش عشرت کو قزاق لڑکی کہہ رہے تھے۔ یہ تو کہیں سے بھی قزاق نہیں ہے۔‘‘

’’وہ خود قزاق ہیں۔ اس لیے ہر ایک ان کو قزاق نظر آتا ہے۔‘‘ رخشندہ ناگواری سے بولی۔ ’’جو خود برا ہو اسے ساری دنیا بری نظر آتی ہے۔‘‘

رخشندہ نے بڑی اچھی بات کہی تھی اور سچی بھی تھی لیکن عشرت کا دماغ اس کچھ اور سمجھا رہا تھا۔ سب سے پہلے اکبر جان نے اسے قزاق لڑکی کہا تھا۔ پھر ساحلِ سمندر پر لفنگوں نے اسے قزاق لڑکی کے نام سے مخاطب کیا تھا اور پھر ابھی لفٹ لینے والے غنڈون نے بھی اسے قزاق لڑکی ہی کہا تھا۔ آخر وہ کتنی باتوں کو اتفاق کہہ کر ٹال دیتی؟ حملہ آوروں کے بیان کو وت وہ بھول جاتی مگر شیر اکبر جان کو کس کھاتے میں ڈالتی۔

کوسٹر گویا مچھلی بازار بن گئی تھی۔ ہر کوئی اپنی اپنی رائے دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کر رہا تھا۔ حملہ آور ان سب لوگوں کے لیے بحث کا موضوع بن گئے تھے۔

ابھی تک ان کی گرما گرم بحث جاری تھی کہ یکایک ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ دھماکے کے ساتھ ہی کوسٹر بری طرح ڈگمگانے لگی۔

"اف میرے مالک ۤ” ممانی جان نے ایک دم سینہ تھام لیا۔ "آج کیسا قیامت کا دن ہے؟”

ان کی بات ادھوری ہی رہ گئی۔ ‘ریٹ ریٹ’ کی آوازوں میں کوسٹڑ کی پوری ونڈ اسکرین غائب ہوگئی۔ کوسٹر لہراتے ہوئے رک گئی۔

"دشمن سر پر آچکا ہے!” ماموں چلائے۔ "گاڑی کے ٹائر ناکارہ کردیے گئے۔ سب لیٹ جائیں ورنہ دشمنوں کی گن ہمیں بھون دے گی۔”

اسی وقت عشرت نے اپنی کلائی پر ایک سخت کھردرے ہاتھ کی گرفت محسوس کی اس نے سر اٹھا کر دیکھا وہ شیر اکبر جان تھا۔

پھر عشرت کی سمجھ میں نہ آسکا کہ وہ کیسے سیٹ سے اٹھی اور کوسٹر کے باہر چھلانگ لگادی۔ اس کی کلائی ابھی تک شیر اکبر جان کی گرفت میں تھی اور وہ اسے لیے چھوٹے چھوٹے ٹیلوں کی آڑ میں دوڑتا چلا جارہا تھا۔

اسی وقت میگا فون کی آواز نے فضا کو اپنی گونج سے چیر دیا۔ "گاڑی میں جو کوئی بھی ہے وہ قزاق لڑکی کو ہمارے حوالے کردے ورنہ دستی بم سے گاڑی کو اڑا دیا جائے گا۔”

عشرت خوف سے چیخنے والی تھی کہ شیر اکبر جان نے تیزی سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور ہلکی سے شش کے ساتھ خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔

"انہوں نے ہمیں نہیں دیکھا۔” شیر اکبر جان نے سرگوشی کی۔ "ابھی وہ گاڑی کی تلاشی لیں گے۔ اتنے عرصے میں ہمیں کسی محفوظ مقام تک پہنچ جانا چاہیے۔”

"تمہیں اپنی جان کی فکر پڑی ہوئی ہے مائی ڈئیر انکل، وہاں میرے ماموں جان اور دوسرے رشتہ دار موت کی گود میں ہیں۔” عشرت زہر خند سے بولی "وہ آخر میرے اپنے ہیں۔”

"وہاں جا کر بھی تم کون سا تیر مار لو گی؟” شیر اکبر جان بھی تلخی سے بولا۔ "بلکہ تمہاری موجودگی سے ان کی موت کے امکانات بڑھ جاٴئیں گے۔ کیا تم سمجھتی ہو کہ دشمن تمہارے ماموں کا اچار ڈالیں گے۔ مائی پور گرل، انہوں نے تمہارے لئے وہاں موت کا بازار گرم کیا ہے۔”

عشرت اس کی باتوں کی صداقت کی قائل تھی مگر وہ اپنے ننھے سے دل کا کیا کرتی جو رشتہ داروں کی محبت میں دھڑک رہا تھا۔

شیر اکبر جان نے اس کی کلائی چھوڑ دی۔ پھر دوڑتے ہوئے ریوالور نکال لیا۔ دوسرے ہاتھ میں ایک خنجر چمک رہا تھا۔

"تم کتنے سبز قدم ہو ۔ جب سے میں تمہارے ساتھ ہوں ہر لمحہ جان کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ جہاں جہاں تمہپارے قدم جاتے ہیں موت کی دیوی وہاں وہاں رقص کرنا شروع کردیتی ہے۔”

وہ کتنی ناشکری کر رہی تھی۔ شیر اکبر جان تو اس کی حفاظت کے لیے ہی اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اسے زندگی دے رہا تھا اور وہ اسی کوساری مصیبتوں کی وجہ گردان رہی تھی۔ لیکن اکبر جان کچھ نہ بولا بس دوڑتا رہا۔

تھوڑی دیر بعد وہ رک گیا۔ پھر ایک گڑھے میں کود گیا۔ گڑھے کے کنارے ایک قدرتی چھجا سا بنا ہوا تھا۔ اگر کوئی اس گڑھے میں چھپ جاتا تو اسے دیکھے جانے کا کوئی امکان نہیں تھا۔

"شیری، ادھر آؤ۔۔۔ یہاں چھپ کر چپ چاپ بیٹھی رہو۔ کچھ بھی ہو تم باہر مت نکلنا۔ یہاں تم محفوظ رہو گی۔”

"کیا تم واپس جاؤ گے؟”

"بحث مت کرو۔ جو کہہ رہا ہوں وہ کرو۔” وہ جھنجھلا کر بولا۔

"اگر یہاں بھی کوئی آگیا تو۔۔۔” وہ خوفزدہ لہجے میں بولی۔

"تم اتنی ڈرپوک کیوں ہو۔۔۔ یہ لو، یہ ریوالور رکھ لو۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ تمہیں ریوالور چلانے کا تجربہ نہ ہوگا۔”

"یہ وحشتناک چیز مجھے کیوں دے رہے ہو؟ اسے اپنے پاس ہی رکھو”

"اب چپ چاپ ادھر چھپ جاؤ، میں ابھی آتا ہوں۔” وہ گڑھے سے باہر نکل گیا اور جلد ہی نظروں سے دور ہوگیا۔

شیری خوف سے سمٹی رہی۔ انجانے دشمنوں کی دہشت سے لرزہ براندام کرنے لگی۔ اس کے ساتھ عجیب و غریب واقعات رونما ہورہے تھے جن کی وجہ سے وہ ناواقف تھی۔

باہر گولیاں چل رہی تھیں اور اس کے اندر طوفان اٹھ رہے تھے۔ باہر کی گولیوں سے تو فی الوقت بچ گئی مگر اندر کے طوفان کا کیسے مقابلہ کرتی؟

اس قسم کی سچویشن اگر فلموں میں ہوتی تو وہ سمجھ لیتی کہ وہ کوئی شہزادی ہے جسے بچپن میں ملک سے بار لے جا کر پالا گیا ہے اور اب اسے اپنے وطن لوٹنا ہے اسی وجہ سے یہ سارے ہنگامے ہورہے ہیں۔ لیکن وہ کسی فلم کی ہیروئن نہیں تھی۔ جیتی جاگتی دنیا کی ایک زندہ فرد تھی۔ اسی وجہ سے پریشان ہو رہی تھی۔

باہر گولیوں کا شور بڑھ گیا تھا۔ شاید شیر اکبر جان مقابلے پر اتر آیا تھا۔ شیر اکبر جان نجانے کیا تھا، عمر بمشکل سولہ سال تھی لیکن لڑنے بھڑنے کے انداز سے وہ تیس سے کم کا معلوم نہیں ہوتا تھا۔

"آہ! یہ آج کا دن کتنا طویل ہو گیا ہے۔ گزرتا ہی نہیں۔ یہ بارہ گھنٹوں کا دن بارہ ہزار سال کے برابر ہو گیا ہے۔” اس نے گبھرا کر سوچا۔ پھر وہ سوچتی چلی گئی۔ "میرے معبود برحق ، خدائے لم یزل ، اے وحدہُ لاشریک لہُ میں نے سنا ہے کہ روز محشر پچاس ہزار سال جتنا طویل ہوگا۔ اس دن سب لوگ تیری بارگاہ میں حالت قیام میں ہوں گے۔ گرمی اپنی عروج پر ہو گی۔ ہر ایک اپنے انجام کے بارے میں ہراساں ہوگا۔ یا اللہ! مجھ سے تو مصیبت کا ایک چھوٹا سا سن بھی کاٹے نہیں کٹ رہا۔ قیامت کے دن میرا کیا حال ہوگا۔

قیامت کے بارے میں سوچا تو وہ گھبرا کر اٹھی۔ اس نے آج سے پہلے اپنی موت کے بارے میں بھی نہیں سوچا تھا کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا۔ اب جو قیامت کا خوف دامن گیر ہوا تو دل ہی دل میں ہولتی رہی۔ پھر اپنے دل میں بولی "اے پیران پیر میں نے یہ بھی سنا ہے کہ کوئی مہینہ آگے نہیں آتا جب تک آپ کے پاس آکر آپ سے گزرنے کی اجازت نہ لے لے۔ آپ تو ولیوں کے ولی ہیں للہ میرے واسطے اللہ سے دعا کیجیے۔ میں آپ کو آپ کے راز کا وسطہ دیتی ہوں ، میری حفاظت و رہنمائی کرنا۔”

وہ کتنی خودغرض تھی۔ جان پر بن رہی تھی تو اپنے غوث کو یاد کرنے لگی تھی۔ ان سے اپنے لئے استعانت طلب کر رہی تھی۔ اس سے پہلے کبھی پیران پیر کو یاد نہ کیا تھا۔ انسان کتنا ناشکرا ہوتا ہے، جب عیش کی حالت میں ہوتا ہے تو بھول کر بھی کسی کو یاد نہین کرتا۔ اپنے آپ کو ہی سب سے اونچا سجھتا ہے لیکن جب مصیبت سر پر آن پڑتی ہے تو فوراً اللہ کی بارگاہ میں کسی وسیلے کی تلاش کرتا ہے۔ وہ بھی انسان تھی، وہ بھی یہی کر رہی تھی۔

وہ کسی کی مرید نہیں تھی لیکن اس وقت کہہ رہی تھی۔ "اے پیران پیر، اے میران میر، اے شاہ جیلاں ، آج سے میں اپنا ہاتھ میں دیتی ہوں ۔ آج سے میں تمہاری سچی مریدہ ہوں، اگر میں آج ماری جاؤں تو قیامت کے دن اپنے جھنڈے کے سائے میں بلا لینا۔”

اسے لگا جیسے وہ واقعی کسی مضبوط پناہ گاہ میں آگئی ہو۔ جیسے کوئی مضبوط سہارا اسے تھامنے کے لیے مل گیا ہو۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے آُ میں ایک عجیب سی تبدیلی محسوس کی۔ ایسی تبدیلی جو پہچانی نہیں صرف محسوس کی جاسکتی ہے۔

اس کے بے قرار دل کو قرار مل گیا۔ دھڑکنیں جو پہلے ہی بے ترتیب تھیں، معمول پر آگئیں۔ چند لمحوں بعد وہ پرسکون ہو چکی تھی۔ ہائے رے انسان تو کتنا مطلب پرست ہے! ہائے رے عشرت! تو بھی تو انسان ہے۔

ہاں! وہ انسان تھی۔ ہر انسان غیر معمولی دھماکے پر چونک اٹھتا ہے۔ وہ بھی چونک اٹھی۔ دھماکہ بہت تیز تھا اور اس گڑھے کے قریب ہی ہوا تھا جس میں وہ چھپی بیٹھی تھی۔ ایک لمحے کو تو وہ اچھل پڑی تھی پھر دوبارہ اندر سرک گئی۔

اسی لمحے کوئی دھپ سے گڑھے میں آ گرا۔ عشرت نے گرنے والے کو دیکھا تو اس کی سانس اوپر کی اوپر رہ گئی۔ گرنے والا سر تا پا خون میں ڈوبا ہوا تھا۔ بایاں کان کٹ کر اس کے گال پر آ پڑا تھا۔ ہاتھ بھی زخمی دکھائی دے رہے تھے۔

گرنے والا زخمی کراہا پھر اس کی گردن بے جان ہو کر ایک طرف ڈھلک گئی۔ زخمی مر چکا تھا۔

عشرت ہمت کر کے مرنے والے کے پاس آئی۔ پھر قریب آکر اس مردہ بدن کو ہلایا۔ بدن ہلاتے ہی وہ ٹھٹھک گئی۔ مردہ کا پیٹ چاک تھا۔ آنتوں کا ایک حلقہ پیٹ سے باہر آنے کو تیا ر تھا۔

عشرت کو بہت زور سے ابکائی آئی جسے روکنے کے لیے اس نے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیے۔ پھر تیزی سے گڑھے کے کنارے اسی طرف چلی گئی جہاں سے آئی تھی۔ بہت دیر تک وہ اپنے آپ کو سنبھالتی رہی مگر جی تھا کے اوکے ہی چلا جارہا تھا۔

جی کچھ زیادہ ہی متلایا تو عشرت شیر اکبر جان کی ہدایت کو بھول بھال کر گڑھے سے بار آگئی۔ مگر وہ لاش کے پاس کب تک رہتی۔ وہ تو ہسپتال کے نام سے ڈرتی تھی کہ مریضوں کے تکلیف سے بگڑے چہرے دیکھنا پڑیں گے، کجا کسی کٹی پھٹی لاش کے پاس ٹہرتی۔

باہر بہت دور دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا تھا۔ عشرت کا دل رو پڑا۔ کہیں خبیث دشمنوں نے کوسٹر کو اگ نہ لگا دی ہو۔! اس سے زیادہ وہ سوچ نہ سکی۔

عین اسی لمحے آس پاس کی ساری فضا ایک مردانہ آواز سے گونج اٹھی۔ مطلب سمجھ میں نہیں آیا مگر پھر بھی وہ آواز سننے لگی۔

"طیّہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آآآ۔۔۔ آ” آواز پھر گونجنے لگی۔ عشرت کو ایسا ہی لگا کہ وہ آواز اس کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ ڈالے گی۔ پھر باہر کی آواز تو ایک لمحہ کو تھم گئی لیکن عشرت کے دل و دماغ میں اس کی بازگشت اب بھی سنائی دے رہی تھی۔

"طیّہ ۔۔۔۔۔ طیّہ آ۔۔۔۔۔ طئی ای ای یا یا یا” آواز اس کے دماغ کے ہر گوشے میں گونج رہی تھی۔

اس کا دماغ گویا ایک وسیع گنبد تھا اور گنبد میں ہر طرف "طیّہ طئی یا” کی آوازیں گونج گونج کر گنبد کی دیواروں کو ہلائے ڈال رہی تھیں۔

"طیّہ۔۔۔۔طیّہ” اس بار آواز نہایت قریب سے آئی تھی۔ "طیّہ۔۔۔ طیّہ۔۔۔طیّہ”

عشرت فوراً آواز کی طرف گھومی اور پتھر کو ہوگئی۔ مگر وہ شہر خوباں میں نہیں تھی۔ شہرِ خوننابہ فشاں میں تھی جہان ہر طرف خون ہی خون دکھائی دے رہا تھا۔

آواز لگانے والا اس کی آنکھوں کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کا چہرہ تپے ہوئے تانبے کی مانند تھا، دھوپ میں چمک رہا تھا۔ سیاہ لمبے لمبے بالوں میں اس کا چہرہ چھوٹا سا لگ رہا تھا۔ آنکھوں سے توانائی کا اظہار ہورہا تھا لیکن ان آنکھوں سے اس وقت سختی اور دھمکی کے بجائے نرمی جھلک رہی تھی۔

عشرت ان انکھوں کی تحریر کو پڑھ کر خوفزدہ ہوگئی۔ نووارد کی نرم آنکھوں سے شناسائی جھلک رہی تھی۔ جبکہ وہ قسم کھا کر کہہ سکتی تھی کہ آنے والے کو جانتی تک نہیں۔ لیکن وہ آنکھیں ادب و احترام سے اس طرح اسے دیکھ رہی تھیں جیسے اس کی برسوں سے شناسائی رہی ہو۔

"کون ہو تم؟” عشرت نے جی اکڑا کر کہا۔

"طیّہ!” نووارد کی آنکھوں سے حسرت ٹپکنے لگی۔ لہجہ جو پہلے پُر جوش نظر آرہا تھا اچانک ہی مایوسی میں بدل گیا۔ جانے کیوں عشرت کو ایسا ہی لگا تھا جیسے کوئی دم میں وہ رو پڑے گا۔

عشرت کا دل اچانک موم کی طرح پگھل گیا۔ وحشت زدہ آنکھوں میں اچانک ہی ممتا کی مٹھاس کے کنول کھلنے لگے۔ وہ نوارد کی تکلیف دور کرنے کے لیے بے چین ہوگئی تھی۔ اس کا نازک دل کسی انسان کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔

"کون ہو تم؟ مجھے کیسے جانتے ہو؟” اس بار اسکی آواز میں مامتا کی مٹھاس شامل تھی۔

نووارد اس طرح اس کی شکل تکنے لگا جیسے اس کی سمجھ میں عشرت کا ایک لفظ بھی نہ آیا ہو۔

عشرت اس بار انگریزی میں بولی "ہو آر یو؟ ہاؤ ڈو یُو نومی؟”

ہُو۔۔۔۔ آئی، ہُو آئی!” نو وارد ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بولا۔ اس کی آواز سے اتنی مایوسی جھلک رہی تھی جیسے وہ دیوانہ ہوگیا ہو۔ پھر وہ واقعی دیوانہ ہوگیا۔ اپنا گریبان پھاڑنے لگا۔

پھر عشرت بالکل نہ دیکھ پائی کہ نووارد نے کب اپنے لباس سے چاقو نکال لیا تھا۔

پھر اس سے پہلے کہ عشرت کچھ سمجھ پاتی، نووارد نے چاقو اپنے دل میں گھونپ لیا۔

وہ تڑپ اٹھی۔ وہ بھی تڑپا پھر عشرت کے قدموں تلے ڈھیر ہوگیا۔ آخری جملہ جو عشرت سمجھ پائی وہ یہ تھا

"ہُو، آئی۔۔۔۔ ڈی ووٹی۔۔۔۔ ٹرسٹ می”

جاری ہے

9 thoughts on “قزاق لڑکی: باب ۳

تبصرہ کریں