قزاق لڑکی (باب ۲)


Words: 3633

قزاق لڑکی

وہ دن غالباً عشرت کی زندگی کا سب سے عجیب و غریب دن تھا۔ صبح پانچ بجے وہ سب ساحل پر پہنچ چکے تھے۔نمازی حضرات نے نماز بھی ساحل پر ہی ادا کی تھی۔ ساحل کی خشک ریت پر ایک بڑی سی چادر پھیلا دی گئی تھی۔ پہلے مردوں نے اپنی جماعت قائم کی تھی اور ان کے بعد عورتوں نے مفرد نماز ادا کی تھی۔ عشرت نے غالباً اس بات کا خواب میں بھی نہ سوچا ہوگا کہ کبھی وہ اس طرح فجر کے وقت ساحل پر ہوگی۔

ہوا یوں کہ اس کی کزن فرزانہ نے ساحلِ سمندر کی سیر کا پروگرام بزرگوں کے سامنے پیش کیا تھا جسے فوراً ہی قبول کر لیا گیا تھا۔ لیکن پھر دوسرے دن انہیں ساڑھے تین بجے اٹھا دیا گیا۔ عشرت تو بہت چراغ پا ہوئی تھی۔ لیکن بزرگوں کے سامنے اس کی ایک نہ چل سکی تھی۔ "نہ جانے صبح صبح جانے کا مشورہ کس نے دیا تھا۔ خیر اب تو جو ہوگا اسے بھگتنا ہوگا۔” عشرت نے سوچا۔

نماز کے بعد سب کو ناشتے کا دھیان آیا۔ ناشتہ بھی جماعت کی صورت میں کیا گیا۔ سارے رشتہ دار خوش گپّیوں کے درمیان ناشتہ کرتے رہے۔

عشرت ناشتے کے بعد فرزانہ کے ہمراہ ساحل کی ریت پر دور تک نکل گئی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ریت پر ننگے پاؤں چلنے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ ان کے پیچھے ان کے پیروں کے نشانات بنتے اور مٹتے رہے۔ ساحل کی ریت زندگی کا فلسفہ سمجھا رہی تھی۔

صبح کا دھندلکا پھیل چکا تھا۔ ملگجی ملگجی روشنی میں دور چند افراد دکھائی دے رہے تھے۔ جو شاید انہی کی طرف آرہے تھے۔

فری ! اب واپس چلتے ہیں‘‘ عشرت نے فرزانہ کا بازو پکڑتے ہوئے کہا ’’ہم کتنی دور نکل آئے ہیں‘‘۔

’’ڈرتی ہو؟‘‘موٹی فرزانہ ہنسی تھی ’’وہ لوگ تمہیں کھا تو نہیں جائیں گے‘‘

کس کی بات کر رہی ہو‘‘۔’’

‘‘ انہی کی جن کو دیکھ کر تم نے واپس چلنے کا مشورہ دیا ہے’’ وہ پھر ہنسنے لگی۔ شیری میری جان جینے کا حوصلہ رکھو۔ زندگی گزارنا آسان کام نہیں ہے”۔

فری آؤ ناں، امی جان ہمیں تلاش کر رہی ہوں گی۔” اس بار عشرت نے اسے گھسیٹا بھی تھا۔‘‘

ڈرپوک! فری نے ہونٹ سُکوڑے۔ ’’وہ بھی تو ہماری طرح انسان ہیں‘‘۔

"انسان ہیں مگر لڑکی نہیں ہیں۔ اب جلدی چلو۔ گھر والے نجانے کیا سمجھ رہے ہوں گے۔” عشرت واپسی کے لیے تیز قدم اٹھاتے ہوئے بولی۔

اسی اثنا میں نوجوان لڑکوں کا ٹولہ قریب آچکا تھا۔ ان کی آنکھوں مین شرارت کی تیز چمک کے علاوہ کچھ اور بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

فرزانہ نے ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر خاموشی سے لمبے لمبے قدم اٹھانے لگی تھی۔ اجنبی نوجوان کے تیور اچھے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔

"ہیلو ینگ ونز وی ویلکم یو ودھ اوپن آرمز”۔ ایک من چلے نے بلند آواز میں کہا لیکن دونوں لڑکیاں اسی رفتار سے چلتی رہیں۔

’’شاید سنا نہیں‘‘

’’مغرور ہیں‘’

’’نہیں’’

’’نہیںــــ بلکہ ڈرتی ہیں‘‘

’’ہوسکتا ہے یہ ہمیں لبھانے کی کوئی ادا ہو۔‘‘ اوباش لڑکے آپس میں ہی جملوں کا تبادلہ کرتے رہے۔ کسی نے یہ نہیں کہا ’’ حیا والی خواتین ہیں‘‘۔ ہر ایک کے دل کی بات زبان پر تھی اور ان کے دل میں شرم وحیا کا نام و نشان تک نہیں تھا۔

’’کیا دونوں ہی بہری ہو؟‘‘ ایک اوباش نے اونچی آواز مین دونوں کو مخاطب کیا ’’کچھ ہمارے دل کی بھی سن لو، ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں۔‘‘

عشرت کی جان نکلی جارہی تھی۔ اور اب تو فری بھی سراسیما دکھائی دے رہی تھی۔ اسی وجہ سے تیز تیز قدم بڑھا رہی تھی۔

جلد ہی وہ دونوں اپنے اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئیں۔ عشرت کی والدہ نے انہیں ڈانٹا، ’’کہاں گئی تھی شیری۔ کیا سب کے ساتھ تیرا دل نہیں لگتا۔‘‘

عشرت نے جواب دینے کے بجائے گھوم کر اپنے پیچھے دیکھا ۔ اوباش لڑکے نظر نہیں آرہے تھے۔

’’کہیں نہیں امی جانی، بس فری کو ذرا زکام ہوگیا تھا۔‘‘

’’خالہ جان، فری بہت بہادر ہےــ عشرت نے بڑی معنی خیز مسکراہٹ سے فرزانہ کی طرف دیکھا تھا۔‘‘

میری بیٹی جو ٹہری’’ انہوں نے فخر سے سینہ تان لیا ’’بالکل اپنی مان پر گئی ہے۔”‘‘

’’بالکل بالکل ‘‘خالو جان نے بڑے وثوق سے گردن ہلائی۔ کاش میں بھی تم پر گیا ہوتا۔

’’ "آپ کو تو ہر وقت ہی مذاق سوجھتا ہے‘‘۔ خالہ جان نے کہا۔ "بچیوں کا تو لحاظ کیا کرو

اسی وقت عشرت کا بھانجا دوڑتا ہوا آیا اور اس کی لان کی قمیض کا دامن کھینچتا ہوا بولا ’آنٹی میں اس بگلے کو بلاؤں؟”

"کیا ہے؟” وہ اپنی قمیض چھڑاتے ہوئے بولی، "کیسے بلاؤ گے؟”

بھانجے نے جواب دینے کے بجائے بگلے کی طرف منہ کیا پھر دونوں ہاتھوں سے منہ پر بھونپو سا بنایا اور زور سے چلایا، "بگلے بگلے تیرا بچہ میرے پاس” ــــــــــ

"احمق”، وہ ہنس پڑی۔ "وہ انسان تھوڑی ہے۔”

بگلے بگلے تیرا بچہ میرے پاس” ــــــــــ۔ ننھا شفیق چلاّتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اچھل پڑا، "وہ دیکھیں آنٹی بگلا آرہا ہے۔””

واقعی ایک بگلا اڑتا ہوا ان کے سروں پر سے گزر گیا تھا۔ "میں نے کہا تھا نا”ـــــــ شفیق جوش و خروش سے بولا، "ہر بگلا اسی طرح آتا ہے۔”

"ہاں ہاں تُو تو جیسے بگلوں کا نفسیات دان ہے ناں۔” شفیق کی والدہ نے اس کے سر پر پیار سے چپت لگائی۔ "کبھی تو عقل سے کام لیا کر۔”

عشرت ہنسنے لگی تھی۔ مگر ہنسی صرف ہونٹ پر پھیلنے کی حد تک تھی۔ آواز والی ہنسی سے وہ خود ہی احتراز کرتی تھی۔ اس کے خیال کے مطابق لڑکیوں کی ہنسی کو کلی کی ہنسی کی مانند ہونا چاہیے۔ کلیاں ہنستے ہوئے کھِل جاتی ہیں مگر کھلکھلاتی نہیں۔

اسی وقت اسکے ننھے منے سے چچا جان قریب آگئے۔ عشرت کی بے آواز ہنسی بھی بند ہوگئی۔ یہ چچا اسے ایک آنکھ نہ بھائے تھے۔ عمر میں وہ عشرت سے کم از کم چھ پرس تو ضرور چھوٹے ہوں گے مگر رعب اس طرح جھاڑتے تھے جیسے کوئی پیر شہتار رسالہ ہوں۔

"کیا بات ہے قزاق لڑکی؟ دانت بہت دکھاتی ہو۔” پندرہ سالہ لڑکا واقعی اس انداز میں اس سے مخاطب ہوا جیسے سچ مچ اسّی سال کا بزرگ ہو۔

قزاق لڑکی کے نام پر عشرت بہت تلملائی۔ وہ کم بخت چچا خود کو جانے کیا سمجھتا تھا۔”میرا نام عشرت ہےــــــــــ سمجھے”۔ آپ وہ نجانےکیسے غصے میں آگئی۔

"اور تم مجھے عشرت کا چچا کہہ سکتی ہو۔” وہ بڑے اطمینان سے پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈال کر بولا۔

عشرت سمجھ گئی کہ وہ اپنی "انکلٹی” کا رعب جھاڑ رہا ہے۔ اتنے کم عمر انکل کو وہ ذہنی طور پر قبول نہیں کر پائی تھی۔اسی وجہ سے تلملا رہی تھی۔

"کیوں تنگ کر رہے ہو بے چاری شیری کو۔” فرزانہ بیچ میں آتے ہوئے بولی "یہ تو ویسے ہی بہت کم بولتی ہے۔ تمہارے جملوں کا جواب دینے کے بجائے اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتی رہے گی۔”

"آپ کی تعریف؟” وہ فرزانہ کی طرف گھوم گیا

"آفٹر یو”

"شیر اکبر جان یعنی ساجن” وہ گردن اکڑکر بولا تھا۔

ساجن؟” فرزانہ حیرت سے بولی۔ "ساجن کا کیا مطلب؟””

"ایس اے جان”

"آئی سی، آئم فرزانہ۔ تم مجھے فری کہہ سکتے ہو۔”

"فری کے بجائے فیری نہ کہوں؟” وہ ہنسا۔ "لیکن اتنی وزنی پَری میں نے آج تک نہیںدیکھی۔ کیوں شیری؟ تم نے دیکھی ہے۔”

"اس پَری سے ذرا پَرے پَرے رہنا۔ آپ جیسے پَروں کے پَرے مل کر بھی اس کے پَر نہیں ہلا سکیں گے” اس بار عشرت نہ جانے کیوں مسکرا اٹھی۔ "یو فری۔۔ ڈونٹ مائنڈ پلیز”

"آئی نیور مائینڈ شیری۔”فری نے صاف گوئی سے کہا تھا۔ پھر شیر اکبر جان سے بولی تھی "تم عمر میں تقریباً ہمرے برابر ہو اس لئے ہم تمہارے نام کے ساتھ خواہ مخواہ "چچاجان” کا لاحقہ نہیں لگائیں گے۔”

"اگر چچا جان نہیں کہہ سکتی تو صرف جان کہہ دیا کرو، میرا مطلب ہے شیر اکبر جان” وہ جلدی سے بولا تھا۔

"لڑکے تم بہت بولتے ہو۔” فرزانہ کی والدہ نے سرزنش کی، "جو گرجتے ہیں وہ برسا نہں کرتے۔”

"مجھےامید ہے کہ آپ مجھے کاٹیں گی نہیں۔ میں نے سنا ہے جو بھونکتے ہیں وہ کاٹا نہیں کرتے”۔ شیر اکبر جان تڑ سے بولا۔ فرزانہ کی والدہ سنّاٹے میں آگئ تھیں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ وہ اتنا منہ پھٹ ہوگا۔

فرزانہ نے غصے میں شیر اکبر جان کو گھورا "شیر اکبر، تم میری ممی کی انسلٹ کر رہے ہو۔”

"وہ جو میری انسلٹ کر رہی ہیں”

"رہنے دو فرزانہ، یہ خبیث خود کو ابھی تک سنگا پور میں سمجھ رہا ہے۔”

"سنگا پور کا خبیث کراچی کی خبیثوں سے نبٹنا خوب جانتا ہے۔ کیوں قزاق لڑکی؟” وہ عشرت کی طرف مڑا۔

عشرت اس بدتمیز پر دل ہی دل میں ہولتی رہی۔ اس کا چچا واقعی بہت منہ پھٹ تھا، ہر ایک کے منہ آرہا تھا۔

"آؤ فرزانہ یہاں سے چلیں، کلثوم اور فہمیدہ تم بھی آؤ” اس نے اپنی ماموں کی لڑکیوں کو بھی پکارا۔

کلثوم اور فہمیدہ بھی ان کے قریب آگئیں۔ کلثوم کم و بیش سترہ برس کی تھی جبکہ فیمہدہ شیری کی ہم عمر تھی۔ کلثوم ادبی ذوق رکھنے والی تھی جبکہ فہمیدہ ایک آزاد خیال لڑکی تھی۔ فلسفے اور شاعری سے اسے خدا واسطے کا بیر تھا۔

وہ چاروں بڑوں کی محفل سے دور جانے لگیں۔ شیری نہیں چاہتی تھی کہ شیر اکبر جان پھر بزرگوں کی گستاخی کرے اس وجہ سے وہ خود وہاں سے ہٹ گئی تھی اور اب کزنز کے ساتھ ہو لی تھی۔

جب وہ کافی دور نکل آئیں تو کلثوم بولی، "شیر اکبر جان صاحب کچھ زیادہ ہی بے ادبی نہیں کر گئے۔ نوجوانوں کو بے ادبی زیب نہیں دیتی۔”

"چھوڑو اس تذکرے کو” فہمیدہ بے زاری سے بولی۔ "ایسے لوگوں کے ذکر سے بھی مجھے سخت وحشت ہوتی ہے۔”

فرزانہ نے اسی لمحے شیری کا بازو تھاما اور سمندر کی لہروں کی طرف بڑھی۔ عشرت اس کا مطلب سمجھ کر بدک گئی۔ "میں پانی میں نہیں جاؤں گی۔”

"تمہارے تو فرشتے بھی جائیں گے فرزانہ نے آنکھیں دکھائیں۔”

"نہیں فری، پلیز، مجھے پانی سے بہت ڈر لگتا ہے۔” وہ گھگھیانے لگی۔ "میں نے آج تک کبھی سمندر میں قدم نہیں رکھا۔ پھر اب تو پانی بھی چڑھنے لگا ہے۔ یقین مانو میں چکرا کر گر جاؤں گی۔”

لیکن فری نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔ چپکے سے اسے پانی میں دھکّا دے دیا۔ شیری ہکا بکا رہ گئی۔ چند لمحوں تک تو اس کے سمجھ میں آیا ہی نہیں کہ کیا ہوگیا۔ پھر جب پانی نے اس کا مزاج پوچھا تو چلّائی "فری کی بچی! یہ کیا حر۔۔۔۔غر۔۔۔۔غت نھے” سمند کا کڑوا پانی اس کے منہ میں چلا گیا تھا۔

"شیری، میری جان پتھروں سے بچنا۔ سمندر کی لہریں جب واپس لوٹتی ہیں تو پتھروں کو بھی ساتھ لے جاتی ہیں۔ کہیں زخمی مت ہوجانا” فری نے پیار سے آواز لگائی۔

فہمیدہ نے بھی پانی میں قدم رکھ دیا اور پھر شیری نے اس کا بازو تھام لیا۔ "تم تو بچّوں سے بھی گئی گزری ہو۔”

فمّی پلیز۔” شیری گڑگڑائی۔ "میں اب ایک قدم بھی آگے نہیں جاؤں گی”۔”

"ڈرپوک” کلثوم نے آواز لگائی تھی۔ "تم فہمیدہ کو کم مت سمجھو ، یہ بہت زبردست تیراکن ہے۔ تمھیں ڈوبنے سے بچا لے گی۔”

"اور پھر ہم کس مرض کی دوا ہیں؟” ایک مردانہ آواز نے کہا۔ چاروں لڑکیوں نے بیک وقت آواز کی طرف دیکھا۔ پانچ چھ جوان لڑکے ان کی طرف کھڑے مسکرا رہے تھے۔

عشرت نے ان کو دیکھا تو اس کی سٹی گم ہوگئی۔ یہ وہی لڑکے تھے جن سے صبح پالا پڑچکا تھا۔ اس وقت بھی ان کی مشکراہٹ میں لچا پن تھا۔

فہمیدہ نے اونہہ کہہ کر شانے اچکا دیے۔ "ارے! تو تو واقعے پری لگتی ہے۔” ایک اور لفنگے نے فہمیدہ کو دیکھ کر بازاری انداز میں کہا، "اب تک کہاں تھی جانم۔”

"تمہاری ماں کے پیٹ میں تھی۔ اب جوڑو رشتہ۔” فہمیدہ اچانک دہاڑ کر بولی تھی۔ وہ کچھ اسی قسم کی تھی۔ مردوں سے بالکل بھی نہیں جھجھکتی تھی۔”

اوباش لڑکے پر یکدم سنّاٹا چھا گیا۔ فہمیدہ کچھ زیادہ ہی بیباک تھی۔ چند لمحوں تک تو اوباش ٹولہ گم سم کھڑا رہا پھر ایک بولا، "مچھلی جب جال میں پھنستی ہے تو خوب تڑپتی ہے۔ مگر تو کیسی جل پری ہے کہ ابھی ہم نے جال پھینکا بھی نہیں اور تو نے ٹڑپنا شروع کردیا۔”

"اچھا تو جناب ‘مگر مچھیرے’ ہیں جبھی اتنی بدبو ساتھ لائیں ہیں۔”

"لڑکی اپنی زبان کو قابو میں رکھ” ایک لفنگا دھاڑا تھا۔ "ورنہ پروں کی طرح زبان بھی کاٹی جاسکتی ہے۔”

"میری زبان اردو ہے۔ کیا اردو کو کاٹو گے۔”

"بہت بولتی ہے۔ بہت بولتی ہے میری چھمیا۔ اور بہت خوب بولتی ہے۔” اس بار لفنگا دھیرے سے مسکرایا تھا۔ "افسوس اب تم زیادہ نہیں بول سکو گی”۔ اس کا ہاتھ جیب میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس کے ہاتھ میں آٹو میٹک ریوالور چمک رہا تھا۔

"قزاق لڑکی کو پانی سے باہر لاؤ” پستول بردار کا لہجہ تحمکانہ تھا۔

قزاق لڑکی کے نام پر عشرت بہت زور سے چونکی تھی۔ فرزانہ بھی حیرت کے سمندر میں غوطے لگا رہی تھی۔”جلدی کرو” ۔پستول بردار نے خوفناک انداز میں پستول کو جنبش دی، "ورنہ تم سب کو موت کے سمندر میں غرق کر دوں گا۔”

عشرت یکلخت لہرائی اور پانی میں گرگئی۔ پستول بردار نے فوراً پستول کو سیدھا کیا اور فہمیدہ پر تان لیا۔

"ٹھائیں” گولی چلی ۔ فہمیدہ بھی پانی میں گرتی چلی گئی۔ فرزانہ اور کلثوم مارے وحشت کے چلّا اٹھیں۔

لفنگا اپنا بازو سہلا رہا تھا۔ اس کا پستول اڑ کر پانی میں پہنچ کر ناکارہ ہو چکا تھا۔

چند لمحوں تک موت کا سنّاٹا چھایا رہا پھر لفنگے کو صورتحال کا احساس ہوا تو اس نے جلدی سے جیب میں ہاتھ ڈال کر چاقو نکال لیا۔ باقی اوباش کے ہاتھوں میں بھی اسلحہ چمکنے لگا تھا۔

"قزاق لڑکی کو پانی سے باہر لاؤ” اس بار لفنگا بلند آواز میں چنگھاڑا تھا۔ اگر اب گولی چلائی تو اس قزّاق لڑکی کے خوبصورت بدن میں گولیوں کے اتنے سوراخ نمودار ہوجائیں گے کہ تم گنتی بھول جاؤ گے۔”

فہمیدہ نے عشرت کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ عشرت مارے خوف کے بری طرح کپکپا رہی تھی۔ اگر فہمیدہ اسے اپنی گرفت سے آزاد کردیتی تو وہ ایک بار پھر پانی میں گر جاتی۔

"جلدی کرو جل پری۔ قزاق لڑکی کو ہمارے حوالے کر دو۔”

"تم ہو کون؟ یہاں کوئی قزاق لڑکی نہیں ہے۔” فہمیدہ نے جی اکڑا کے کہا۔

"تمہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔”

"ٹھائیں” گولی چلنے کی آواز ایک بار پھر سنائی دی۔ لفنگے کے ہاتھ سے چاقو بھی نکل گیا۔

عشرت حیران تھی کہ یہ گولیاں کو چلا رہا ہے۔ لفنگوں کا سردار چیختے ہوئے کہہ رہا تھا، "تم جو کوئی بھی ہو، زیادہ چالاک بننے کی کوشش نہ کرو۔ ورنہ لڑکی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔”

ٹھائیں ٹھائیں کی آواز پر ابھری۔ باقی لفنگوں کے ہاتھوں سے بھی ریوالور نکلتے چلے گئے۔ پھر قریب ہی ٹیلے کے پیچھے سے ایک لمبا تڑنگا نوجوان برآمد ہوا۔ عشرت اسے دیکھتے ہی اچھل پڑی۔ وہ شیر اکبر جان کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ خالی ہاتھ نہیں تھا۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں ریوالور تھے۔ جنکی نال سے ہلکا ہلکا سا دھواں اب بھی نکلتا دکھائی دے رہا تھا۔

’’بہت جی دار ہو۔ اکیلے ہی چلے آئے۔” لفنگوں کا سردار تمسخرانہ لہجے میں بولا۔

’’کون ہو تم؟” شیر اکبر جان کڑکدار آواز میں بولا۔

’’تمہارا باپ‘‘

شیر اکبر جان کا ہاتھ گھوم گیا ادھر لفنگوں کے سردار کا منہ گھوم گیا۔ پھر جب اس کا چہرہ دوبارہ سامنے آیا تو اسکی ناک اور بانچھوں سے خون بہہ رہا تھا۔

’’لڑکے تو ہمارے معاملے میں مت پڑ نقصان اٹھائے گا۔ جا چلا جا، اپنی جوانی پر ترس کھا کیوں قبرستان میں مکان خریدنے کے درپے ہے۔”

وہ لڑکا درندگی سے ہنس پڑا۔ ’’قبرستان میں گورکن کا گھر بھی ہوتا ہے جو تجھ جیسے لوگوں کو مٹی تلے دفنا دیتا ہے۔”

اسی وقت لفنگوں کے سردار نے اس پر حملہ کردیا۔ اس نے شاید اسی لیے شیر اکبر جان کو باتوں میں لگایا تھا کہ اسے بے خبر پا کر حملہ کردے۔

پہلے تو شیر اکبر جان لڑکھڑا کر پیچھے ہٹتا چلا گیا۔ پھر دونوں ریوالور پھینک دیے اور لفنگوں کے سردار پر پل پڑا۔ سردار بھی کوئی کم نہیں تھا لیکن شیر اکبر کی ہر ضرب پر اس طرح بلبلانے لگتا جیسے وہ ہاتھ نہ ہوں ہتھوڑا ہوں۔

اچانک ہی سردار چلایا، ’’حرام خورو، منہ کیا تک رہے ہو؟ اٹھاؤ ریوالور۔”

لفنگے ریوالور کی طرف لپکے مگر شیر اکبر کا قہقہہ سن کر رک گئے۔ اس نے سردار کے سر پر زوردار ہاتھ رسید کرتے ہوئے کہا، ’’تم جیسے گدھوں سے مقابلے کے وقت مجھے تم سے اسی خباثت کی توقع تھی۔ ریوالور تمہاری کھوپڑی کی طرح خالی ہیں۔”

سردار کی کراہ بہت طویل تھی ’’تو اتنا حرامی نکلا۔ اگر میں بچ نکلا تو تیری بوٹیان کتوں کو کھلاؤں گا۔”

"آج تک کسی کتیا نے ایسا کتا جنم نہیں دیا جو میری بوٹیاں کرسکے۔” شیر اکبر نے ایک زوردار ضرب اس کے سینے پر لگائی۔ سردار گھٹنوں کے بل جھک گیا۔

لفنگوں نے جب اپنے سردار کی درگت بنتی دیکھی تو سب بھاگ کھڑے ہوئے۔ پھر سردار نے بھی آخری کوشش کرتے ہوئے شیر اکبر کو دھکا دیا اور بری طرح بھاگا۔ شیر اکبر نے اس کا پیچھا کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اس کے بجائے اپنے ریوالور اٹھانے کے لیے جھکا تھا۔

"بریوو!” فہمیدہ نے خوشی سے نعرہ لگایا "مائی ڈئیر انکل، تم تو بہت چھپے رستم نکلے۔ کیا شاندار فائٹ تھی یو آر گریٹ۔”

فرزانہ اور کلثوم بھی حیرت بھری نطروں سے اسے دیکھنے لگیں۔ ان کے سان و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پندرہ سولہ سال کا لڑکا اس حد تک دلیر ہوگا۔

وہ خاموشی سے ریوالور اٹھا کر عشرت کی طرف دیکھنے لگا۔ عشرت کے قدم اب تک لرز ش میں تھے۔

"یہ پستول مجھے دکھانا‘‘ فرزانہ نے اسکے ہاتھوں سے پستول لے لیا۔ پستول اس کی توقع سے زیادہ بھاری تھا۔ وہ تو سمجھتی تھی کہ پستول ہلکا پھلکا ہوتا ہوگا لیکن اس کا وزن تقریباً ایک کلو گرام تو ضرور ہوگا۔

"احتیاط سے، کہیں گولی نہ چلا دینا۔” وہ بولا۔

"مگر گولی کیسے چلے گی۔ ابھی تم نے ان بدمعاشوں سے کہا تھا کہ دونوں پستول خالی ہوچکے ہیں۔” فرزانہ حیرت سے بولی۔

وہ اچانک ہنس پڑا، "سائیکالوجی مائی ڈئیر۔ ہیومن سائیکالوجی۔ اگر میں ایسا نہ کرتا تو یہاں ہم میں سے کسی کی لاش پڑی ہوتی۔”

عشرت لرز اٹھی۔ اگر لفنگوں میں سے کوئی ایک لفنگا بھی شیر اکبر جان کے پستول اٹھا لیتا تو اس وقت یقیناً کسی کی لاش وہاں پڑی ہوتی۔ لاش کا تصوّر ہی روح فرسا تھا۔ اور عشرت نے اتنی بھیانک موت کو تو سوچا ہی نہیں تھا۔ اسے رہ رہ کر شیر اکبر جان کی دلیری پر حیرت محسوس ہوئی۔ اس نے کتنی لاپرواہی سے بھرے ہوئے ریوالوروں کو لفنگوں کے سامنے پھینک دیا تھا اور پھر سردار پر پل پڑا تھا۔ اگر لفنگوں میں سے کوئی ریوالور اٹھا لیتا تو؟ عشرت اس سے آگے نہ سوچ سکی۔

فہمیدہ کہہ رہی تھی۔ "تم نے بہت بڑا رسک لیا تھا۔ چلو مان لیا کہ بدمعاشوں کے ریوالور پانی میں گر کر ناکارہ ہوگئے لیکن اگر وہ تمہاری باتوں میں نہ آتے اور تمہارا ریوالور اٹھا لیتے تو کیا ہوتا، تم سردار سے لڑ رہے تھے۔ اس دوران یا تو وہ مجھے یا عشرت کو نشانہ بنا لیتے۔”

"اسی کو تو نفسیات کہتے ہیںجنابِ والا” وہ قدرے زور سے ہنسا۔ "وہ کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کی خالی ریوالور کوئی یوں بھی پھینک سکتا ہے۔”

فہمیدہ کچھ نہ بولی۔ شیر اکبر کجان لفنگوں کے بھیگے ہوئے ریوالور اکھٹّا کرنے میں مصروف ہوگیا تھا۔

دوپہر تک کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ البتّہ عشرت اور فرزانہ کے ساتھ ساتھ فہمیدہ اور کلثوم کو بھی چپ سی لگ گئی تھی۔ گھر والوں نے اسے موڈ کی تبدیلی سمجھا تھا۔ رشتہ داروں میں سے چاروں لڑکیوں اور ایس اے جان کے علاوہ کسی کو بھی اس ناخوشگوار واقعے کا علم نہیں تھا۔ شیر اکبر جان نے سختی سے ہدایت کی تھی کہ کسی کو بھی اس حادثے کا علم نہ ہو پائے۔

عشرت اس وقت ایک بڑے پتھر پر بیٹھی بظاہر سمندر کی آتی جاتی لہروں کا نظارہ کر رہی تھی۔ مگر در حقیقت اس کا دماغ اس واقعے پر غور کر رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اس کے ننھے چچا جان نے صبح اسے قزاق لڑکی کے نام سے مخاطب کیا تھا پھر ان لفنگوں نے بھی قزاق لڑکی کہہ کر اسی کی طرف اشارہ کیا تھا۔ کیا یہ محض اتفاق تھا؟ یا اس کے پیچھے کوئی گہری سازش چھپی ہوئی ہے؟ وہ قزاق نہیں تھی۔ بلکہ اس جیسی کم ہمت لڑکی کبھی قزاق بننے کی جراٗت ہی نہیں کرسکتی تھی۔ تو پھر اسے قزاق لڑکی کیوں کہا جارہا ہے؟

وہ سوچتی رہی اور الجھتی رہی۔ ہر سوچ اس کی الجھن میں اضافہ کر رہی تھی۔ اسے جانے کیوں ایسا لگا جیسے شیر اکبر اسکا چچا نہ ہو، مجرموں کے کسی بڑے گروہ کا سر غنّہ ہو۔

اس خیال نے اسے دہشت میں مبتلا کردیا۔ وہ اٹھی اور بے چینی سے ٹہلنے لگی۔ ’’کیا ایسا ہوسکتا ہے؟‘‘ اس کے دل نے سوال کیا۔ دماغ بولا، "کیا ایسا نہیں ہوسکتا۔”

اس کے دماغ میں خاموش جنگ ہورہی تھی۔ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا، کیوں نہیں ہوسکتا ، لیکن ایسا کیوں ہوگا، ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو‘‘۔ جنگ ہوتی رہی۔ وہ آخر وقت تک کوئی فیصلہ نہ کر پائی۔

لنچ کے بعد روانگی ہوئی تو وہ اپنے آپ کو بہت کمزور اور بہت غیر محفوظ سمجھ رہی تھی۔ عدم تحفظ کا احساس اسے مارے دے رہا تھا۔

ماموں جان کی کوسٹر کی آگے کی ساری سیٹیں فُل ہوچکی تھیں۔ پچھلی تیس خالی تھیں۔ خالو جان کی ہائی ایس اس قدر فل ہوکر روانہ ہو چکی تھی۔ بہ دل نخواستہ وہ پچھلی سیٹوں کی طرف آگئی۔ سب سے پچھلی سیٹ پر شیر اکبر جان دراز تھا۔ اسے آرام سے لیٹا دیکھ کر جانے کیوں عشرت جل گئی۔ لیکن پھر جانے کیا خیال آیا کہ وہ چپ چاپ ہی اس کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ تھکن کی ایک طویل سانس بھی اس کے سینے سے خارج ہوئی تھی۔

جاری ہے

36 thoughts on “قزاق لڑکی (باب ۲)

تبصرہ کریں