اعلی حضرت


مولانا احمد رضا خان 1272 سن ہجری کی 10شوال المکرم کو پیدا ہوئے۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ ، اللہ پاک کے ان مُقَرَّب اور چُنے ہوئے نیک بندوں میں سے تھے جن کو کتاب و قلم کے سہارے تو بہت کچھ ملا ہی تھا مگر فیضِ ربِّ قدیر سے وہ وہ کچھ ملا کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وہ شخصیت ہیں جو پیدائشی ولی اللہ تھے ۔

بچپن کے حالات

جب ان کو مولوی صاحب قرآنِ کریم کے نسخے میں اِعراب کی غلطی کی وجہ سے لفظ کو غلط پڑھاتے ہیں مگر یہ مجدّدِ ملت اس لفظ کودرست ہی پڑھتے ۔

ساڑھے تین سال کی عمر میں ایک عربی شیخ سے عربی میں بات چیت کرتے ہیں۔

آپ کا حافظہ کمال کا تھا، ابتدائی سبق ایک سے دو مرتبہ میں یاد ہو جاتا۔ استاد صاحب سبق سنتے تو کوئی غلطی نہ نکال پاتے۔ چار سال کی عمر میں قرآن کریم ناظِرہ مکمل پڑھ لیتے ہیں۔

چھ سال کی عمر میں مِیلادُالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر تقریر کرتے ہیں تو مشائخ عظام داد و تحسین سے نوازتے ہیں۔

اسی عمر میں سمتِ بغداد معلوم کرلیتے ہیں تو تادمِ حیات کبھی اس طرف پاؤں نہیں پھیلاتے۔

آٹھ سال کی عمر میں عربی کتاب کی عربی میں شرح لکھ دیتے ہیں۔

صرف تیرہ سال کی عمر میں تمام علوم سے سندِ فراغت اور اسی دن پہلا فتویٰ بھی تحریر فرمادیتے ہیں۔

کوئی خط میں حافظ لکھ دیتاہے تو اُس کے حُسنِ ظنّ کو پورا کرنے کی خاطرایک ماہ میں حفظِ قرآن مکمل کرلیتے ہیں۔

جب مدینہ پاک میں حاضر ہوتے ہیں تو سر کی آنکھوں سے سرکار دوعالم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دیدارکا شرف بھی حاصل کیا ۔

ہزاروں سے اعلیٰ ہمارا رضا ہے

ہزاروں میں یکتا ہمارا رضا ہے

عادات و اوصاف

نماز پنج گانہ مسجد میں باجماعت ادا فرماتے۔

فرض نماز با عمامہ ادا کرتے۔

مسجد میں عموماً عصر تا مغرب اعتکاف فرماتے۔

قبلہ رو کبھی نہیں تھوکتے، اور نہ ہی قبلہ رو پاؤں پھیلاتے۔

ٹھٹھا لگا کر کبھی نہیں ہنستے۔

سادگی پسند اور سادہ لباس تن زیب فرماتے۔


حلیہ

آپ کا قد میانہ تھا۔ رنگ چمکدار گندمی تھا آپ بلند پیشانی، بینی نہایت ستواں تھی۔ ہر دو آنکھیں بہت موزوں و خوبصورت تھیں۔ نگاہ میں قدرے تیزی تھی جو پٹھان قوم کی خاص علامت ہے۔ داڑھی بڑی اور خوبصورت تھی۔ سرپر ہمیشہ عمامہ بندھا رہتا تھا۔ ہر موسم میں سوائے موسمی لباس کے آپ سفید ہی کپڑے پہنا کرتے۔آپ کی آواز نہایت پردرد تھی اور کسی قدر بلند تھی۔ آپ جب اذاں دیتے تو سننے والے ہمہ تن گوش ہو جاتے۔ آپ بخاری طرز پر قرآن پاک پڑھتے۔ آپ کا طرز ادا عام حفاظ سے جدا تھا۔ بڑے بڑے قاریوں کا یہ کہنا ہے کہ آپ "ضاد” کا مخرج ایسا صاف و شفاف ادا کرتے کسی قاری کو نہ سنا۔ اس مخرج کی تحقیق میں آپ نے ایک مکمل کتاب تصنیف فرمائی جس کا نام الجام الصاد عن سنن الضاد ہے۔

تعظیم و ادب

اعلیٰ حضرت ادب کو بہت زیادہ ملحوظِ خاطر رکھتے۔ آپ کے رفقاء نے کبھی آپ سے نبی صلی االلہ علیہ وآلہ وسلّم کا نام "محمد” استراحتٍ استعمال کرتے نہ سنا۔

آپ اپنے والدین کا بھی خوب ادب فرماتے۔ والد محترم کے وصال کے بعد اعلیٰ حضرت جاںیداد کے مالک تھے لیکن اختیار والدہ محترمہ کے پاس تھا۔ کوئی بھی خریداری والدہ کی اجازت کے بغیر نہ فرماتے۔

آپ علماء کرام کی بھی بہت تعظیم و تکریم فرمایا کرتے اور ان کی اہمیت یوں بیان کی

یہ علماء کرام ایسے ہیں کہ جیسے
کسی ویرانے میں اترتے ہیں تو ان
کے دم قدم سے وہ پرونق شہر ہو
جاتا ہے۔ اور جب کسی شہر سے
روانہ ہوتے ہیں تو وہ ویران ہو جاتا ہے۔

کرامات اعلیٰ حضرت

حضرت مفتی محمدامجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتے ہیں ۔ کہ ہم اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کی بارگاہ سے حدیثِ پاک کا درس لیا کرتے تھے ، ایک دن ہم درسِ حدیث شریف پڑھ رہے تھے ، آپ خلافِ عادت وہاں سے اٹھے اور تھوڑی دیر بعد پریشانی کی کیفیت میں واپس تشریف لائے تو آپ کےدونوں ہاتھ آستین سمیت پانی سے گِیلے تھے ۔ آپ نے باہر سے مجھے بلایا اور حکم فرمایا کہ دوسرا خشک کُرتا لے کر آئیے ۔ میں نےکُرتہ حاضر کیا ، آپ نے پہنا اور ہم لوگوں کو درسِ حدیث دینے لگے ، لیکن میرے دل میں یہ بات کھٹکی تو میں نے وہ دن ، تاریخ اور وقت لکھ لیا۔ تھوڑے دن کے بعد کچھ لوگ تحفہ تحائف لے کر حاضر ہوئے ، جب وہ لوگ واپس جانے لگے ، تو میں نے ان سے حال پوچھا کہ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ اور کیسے آنا ہوا ؟ تو ان لوگوں نے اپنا واقعہ بیان کیا کہ ہم فلاں تاریخ کو کشتی میں سفر کر رہے تھے ، ہوائیں تیز چلنے لگیں ، موجیں زیادہ ہونے لگیں ، خطرہ پیدا ہوگیا کہ اب کشتی اُلٹ جائےگی اور ہم لوگ ڈوب جائیں گے ، اس پریشانی کے عالم میں ہم سب نے اعلیٰ حضرت کے وسیلے سے اللہ پا ک کی بارگاہ میں دعا مانگی اور نذرمانی ۔ اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ ایک شخص کشتی کے قریب آیا اور اس نے کشتی کا کنارہ پکڑ کرہمیں دریا کے کنارے پہنچا دیا ۔ اور ہم بخیر و عافیت اپنے گھروں کو پہنچ گئے اور اللہ پاک نے اعلیٰ حضرت کےوسیلے کی برکت سے ہم لوگوں کو ڈوبنے سے بچا لیا۔ اُسی نذر کو پورا کرنے اور اعلیٰ حضرت کی زیارت کرنےکے لیے ہم یہاں حاضر ہوئے ہیں ۔

حضرت شاہ مانا میاں صاحب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت اپنی مسجد سے نماز پڑھ کر تشریف لارہے تھے کہ گلی میں لوگوں کا ہجوم دیکھا۔ اعلیٰ حضرت نے دریافت کیا یہ کیسا ہجوم ہے؟ تو بتایا گیا کہ ایک غیر مسلم جادوگر اپنا جادو دکھا رہا ہے ۔ تین چار کلو پانی سے بھرا ہوا برتن کچے دھاگے سے اٹھا رہا ہے ۔ اعلیٰ حضرت بھی لوگوں کے رش کی طرف بڑھے اور جادوگر سے فرمانے گے کہ ہم نے سنا ہے کہ پانی سے بھرا ہوا برتن کچے دھاگے سے اٹھا لیتے ہو؟ اس نے کہا جی ہاں ۔ ارشاد فرمایا کوئی اور چیز بھی اٹھا سکتے ہو ؟ اعلیٰ حضرت نے اپنےجوتے کو اپنے پاؤں سے نکالتے ہوئے فرمایا کہ اس کو اٹھا نا تو دور رہا ، اپنی جگہ سے ہٹا دو تو بڑی بات ہے۔ جادوگر نے بہت کوشش کی لیکن وہ اس جوتے کو اپنی جگہ سے ہِلابھی نہ سکا ۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا : اچھا برتن ہی کو اب اٹھا کر دکھا دو ۔ اب جو اس نے برتن کو اٹھا نا چاہا تو برتن بھی نہ اٹھ سکا۔ وہ جادو گر اس کرامت کو دیکھ کر اعلیٰ حضرت کے قدموں پر گِر پڑا اور کلمہ طیبہ پڑھ کردولتِ اِسلام سے سرفراز ہوا۔

اِک دل ہمارا کیا ہے آزار اس کا کتنا

تم نے تو چلتے پھرتے مُردے جِلا دیے ہیں

زیارت مدینہ

اعلی حضرت جب زیارت حرمین شریفین کے لیے پہلی بار عازم سفر ہوئے تو اور صبح صادق کے وقت ایک ستارے کو عین گنبد خضرا کے قریب پایا اس وقت آپ نے مشہور کلام کا مطلع لکھا

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا

صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا

دیدار سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم

جب دوسری مرتبہ زیارت نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ کے لیے مدینہ طیبہ حاضر ہوئے تو شوق دیداد میں مواجہہ میں حاضر ہوئے اور یقین کیاکہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم توجہ فرمائیں گے اور زیارت سے مشرف فرمائیں گے لیکن پہلی شب ایسا نہ ہوا تو ایک نعت لکھی جس کا مطلع یہ تھا

وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں

تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں

جب مراد بر نہ آئی اور صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو یہ مقطع پڑھا

کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا

تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں

قسمت جاگ اٹھی اور چشم سر سے بیداری میں زیارت حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے مشرف ہوئے۔

تصانیف

احمد رضا خان نے کم و بیش پچاس مختلف علوم فنون پر ایک ہزار کتابیں لکھیں ہیں ان میں چند مندرجہ ذیل ہیں :

کنزالایمان:قرآن مجید کا ترجمہ کیا جس پر آپ کے خلیفہ سید نعیم الدین مراد آبادی نے حاشیہ لکھا ہے۔ اس ترجمہ کا انگریزی (میں تین بار)، ہندی، سندھی، گجراتی، ڈچ، بنگلہ وغیرہ میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

:العطايا النبويہ في الفتاوي الرضويہ ،:فتاویٰ رضوی جدید کی 33 جلدیں ہیں جن کے کل صفحات 22 ہزار سے زیادہ کل سوالات مع جوابات 6847 اور کل رسائل 206 ہیں۔ ہر فتوے میں دلائل کا سمندر موجزن ہے۔

نزول آیات فرقان بسکون زمین و آسمان: اس کتاب میں احمد رضا خان نے قرآنی آیات سے زمین کو ساکن ثابت کیا ہے اور سائنس دانوں کے اس نظریے کا کہ زمین گردش کرتی ہے رد فرمایا ہے۔

جد الممتار علی الردالمختار: علامہ ابن عابدین شامی کی ردالمختار شرح درمختار پر عربی حواشی ہیں۔

الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ: دوسری بار جب حج کے لیے مکہ میں تھے، اس وقت کچھ ہندوستانی حضرات نے مسئلہ علم غیب سے متعلق ایک استفتاء پیش کیا۔ قرآن و حدیث کے علاوہ اس کتاب میں منطق سے دلائل دیے گئے۔]

کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراہم: (1906ء) کاغذی کرنسی، سے متعلق علمائے حرمین کے سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے۔ اس دور میں یہ مسئلہ متنازع تھا اور مگر احمد رضا خان کے جوابات دیکھ کر علمائے حرمین نے دل کھول کر تعریف کی۔ 1911ء میں ایک ضمیمہ کا اضافہ کیا اور اس کا اردو ترجمہ کیا۔ سید ابو الحسن ندوی نے کفل الفقیہ کا بطور خاص ذکر کیا ہے اور فقاہت میں احمد رضا خان کی مہارت کا شاہد و گواہ قرار دیا۔

حداںق بخشش

آپ کا نعتیہ دیوان حدائق بخشش تین جلدوں میں ہے، پہلے دو جلدیں احمد رضا خان کی حیات میں اور تیسری، بعد از وفات جمع کر کے کلام شائع کیا گيا۔

عربی کلام

آپ کا عربی کلام جامعہ ازہر کے مصری محقق پروفیسر حازم محمد احمد نے بساتین الغفران کے نام سے مرتب کیا ہے۔


وفات و مزار

پچیس صفر 1340ھ مطابق 1921ء کو جمعہ کے دن ہندوستان کے وقت کے مطابق 2 بج کر 38 منٹ پر عین اذان کے وقت ادھر موذن نے حی الفلاح کہا اور ادھر امام احمد رضا خان نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ احمد رضا خان کا مزار بریلی شریف میں آج بھی زیارت گاہ خاص و عام بنا ہوا ہے۔

11 thoughts on “اعلی حضرت

تبصرہ کریں