حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللّہ علیہ


عین سویرا

ملک میں دینِ اکبری رائج تھا,سنتوں کی جگہ بدعت کی تاریکی نے لے لی, آخر قدرت کو رحم آیا اور شیخ عبدالاحد کے گھر۔971ھ/ 1564ء میں سرہند سے عین سویرا ہوا اور شیخ احمد مجدد الف ثانی کی ولادت باسعادت ہوئ.

کئی واسطوں کے بعد آپ کا شجرۂِ نسب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے.

تعلیم

ابتدائی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی, کتب حدیث کی سند حضرت شیخ یعقوب کشمیری سے اور حضرت قاضی بہلول بدخشانی سے تفسیر کا درس لیا اور سند حاصل کی.

اکتسابِ فیض

چشتیہ سلسلے کا خرقہ خلافت والد ماجد سے حاصل کیا. شیخ کمال کھتلی سے قادریہ سلسلے کی خلافت و اجازت حاصل کی. سلسلہ نقشبندیہ میں خرقہ خلافت خواجہ باقی بااللہ نے عطا فرمایا.

دورِ اکبری

شیخ ابوالفیض فیضی کی شہرت تفسیرِ بے نقط کی وجہ سے اکبر تک پہنچی تو دربار میں طلبی کا حکم صادر ہوا اور ” ملک الشعرا ” کا خطاب پایا. فیض ہی کی وساطت سے اس کا بھائی ابوالفضل دربار سے وابستہ ہوا. دونوں بھائیوں نے اپنے باپ شیخ مبارک ناگوری کے ساتھ ملکر اکبر بادشاہ کو ” دینِ اکبری ” کی راہ پر گامزن کیا.

اس کے بہکنے کا حال ملا عبدالقادر کی زبانی سنیے: ” آگ , پانی, درخت اور پتھر تمام مظاہرِ کائنات یہاں تک کہ گائے کے گوبر کی پرستش کرتے, قشقہ لگاتے, زنار پہنتے, تسخیرِ آفتاب کی دعا جس کو ہندو رشیوں نے سکھایا, وظیفے کے طور پر آدھی رات کو پڑھتے.

اکبر کے مرنے کے وقت آپ کی عمر مبارک 43 برس تھی. اکبر کا بیٹا جہانگیر تخت پر بیٹھا لیکن معاملات جوں کے توں رہے.ایک دنیا بدعت کے سمندر میں ڈوبی ہوئی تھی, اسی زمانے کے اکثر علماء نے بدعات کو رواج دیا اور سنت کو مٹایا مگر احیائے سنت اور ردّ بدعت کی یہ سعادت حضرت مجدد کے حصے میں آئی.

وحدۃ الوجود اور وحدۃالشہود

اکبری دور میں فیض جیسے لوگوں نے نظریہ وحدۃالوجود کو توڑموڑ کر اس طرح پیش کیا کہ بادشاہ بتوں کی پرستش پر تیار ہوگیا. مجدد صاحب نے وحدۃالشہود کو باضابطگی اور باقاعدگی کے ساتھ پیش فرمایا جس سے اس نے ایک نظریے کی صورت اختیار کرلی.

دورِ نظربندی 1028ھ تا 1029ھ

درباریوں کے بہکانے پر جہانگیر نے مجدد صاحب کو دربار میں طلب کیا اور آپ سے مکتوبات شریف میں درج روحانی احوال سے متعلق سوالات کیے, آپ نے نہایت مدلل اور بے باکانہ جواب دیئے. بادشاہ کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا تو خوشامدیوں نے پھر کان بھرے کہ اس نے آپ کو سجدہ نہیں کیا, غضبناک ہوکر گوالیار کے قلعے میں نظر بند کرنے کا حکم دیا.

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے

جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمئِ احرار

اس قید میں آپ کملاتِ عالیہ پر فائز ہوئے, کئی کافر قیدیوں نے اسلام قبول کیا اور کئی قیدیوں کی آپ نے تربیت فرمائی. آپ کے ایک متعمد خاص کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ( یہ رہے جہانگیر بادشاہ اور ہمارے دشمن. ان کو ہمارے سامنے لایا گیا ہے اگر چاہوں تو سب کو ہلاک کردوں لیکن میں نہیں چاہتا, خدا کے فیصلے پر راضی ہوں, اس مصیبت میں بہت سےفائدےاور مزے دیکھیں ہیں.)

آثارِ وصال

شعبان المعظم 1033ھ کا ایک واقعہ صاحبزادگان نے خواجہ بدرالدین سے اس طرح نقل فرمایا: والدہ ماجدہ فرماتی ہیں شب براءت تھی , حضرت خلوت خانےمیں شبِ بیداری فرمارہے تھے, دو پہر رات گزر چکی تھی, آپ اندرونِ خانہ تشریف لائے, میں مصلے پربیٹھی تسبیح پڑھ رہے تھی, میں نے آپ سے پوچھا کیا آپ نے تہجد پڑھ لی ہے؟ فرمایا: نہیں ابھی نہیں پڑھی, طبیعت ذرا ملول تھی جی میں آیا کہ تھوڑی دیر سوجاؤں پھر تہجد کے لیے اٹھوں گا. تھوڑی دیر سو گئے پھر اٹھ کر وضو فرما رہے تھے کہ میرے منہ سے نکلا کہ نا معلوم خدا نے آج کس کس کے نام ورقِ ہستی سے مٹائے ہونگے. آپ نے فرمایا تم یہ بات شک اور تردد سے کہہ رہی ہو, اس شخض کا کیا حال ہوگا جو یہ دیکھ رہا ہے اور جانتا ہے کہ صحیفۂِ ہستی سے اس کا نام مٹادیا گیا ہے.

وصال شریف

خواجہ معصوم فرماتے ہیں: دن مکتوبات میں مصروف رہے, رات بخار آیا اور 28 صفرالمظفر 1034ھ بروز شنبہ صبح کے وقت جانِ عزیز جانِ جاں کے سپرد کی.

خواجہ باقی بااللہ کا خواب

خواجہ صاحب فرماتے ہیں: میں نے دیکھا ایک طوطا شاخ پر بیٹھا ہے, میں نے چاہا وہ میرے ہاتھ پہ آجائے تو وہ آگیا, میں نے اس کے منہ میں لعاب ڈالا تو اس نے میرے منہ میں شکر ڈالی. میں نے یہ خواب اپنے شیخ حضرت خواجہ امکنگی کو سنایا تو انہوں نے فرمایا: طوطا ہندوستانی پرندہ ہے تم ہندوستان جاؤ وہاں کسی کو تم سے اور تم کو اس سے فائدہ ہوگا. جب آپ ہندوستان تشریف لائے تو مجدد صاحب کو دیکھتے ہی پہچان لیا.

مجدد الف ثانی

آپ کو مجدد الف ثانی سب سے پہلے فاضل جلیل مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی نے تحریر فرمایا.

اجازت نامہ

حضرت مجدد صاحب اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں کہ میں نے رمضان المبارک میں سرکار نے اپنی زیارت سے مشرف فرمایا اور ایک اجازت نامہ مرحمت فرمایا جس پر تحریر تھا ” دنیا کے اجازت نامے کے عوض آخرت کا اجازت نامہ دیا گیا ہے اور مقامِ شفاعت سے بھی حصہ عطا فرمایا گیا ہے”.

مجدد صاحب نے خواب کی خوشی میں جشن منانے اور اہلِ خانہ کو قسم قسم کے کھانے پکانے کی ہدایت فرمائی اور اظہارِ تشکر فرمایا.

7 thoughts on “حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللّہ علیہ

  1. شاہد بھائی، بہت ہی بہترین اور ٹو دی پوائنٹ پوسٹ ہے۔ دینِ اکبری سے لے کر اس کے قلع قمع تک کی داستان اور جس طرح حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے اس کا خاتمہ کیا سب کچھ پڑھ کر بہت اچھا لگا۔
    بہت شکریہ

    Liked by 1 person

تبصرہ کریں