خوبصورت جورو


Words: 1614

کسی شہر میں ایک مرد لشکری جورو نہایت خوبصورت رکھتا تھا۔ اور اُس کی حرمت کی نگہبانی کیا کرتا تھا۔ ایکدم اُس کے پاس سے جدا نہ ہوتا۔ اتفاقاً گردشِ فلکی سے لشکری محتاج ہوا۔ تب اُس کی جورو نے پوچھا کہ اے صاحب تم نے کیوں اپنا کاروبار دنیا کا موقوف کیا جو احوال یہاں تک پہنچا۔

اُس نے کہا کہ اے بی بی مجھے تیرا اعتبار نہیں اس لیے کہ سب کاروبار تباہ کر کے یہاں تک خراب ہوا ۔ نہ کہیں جا سکتا ہوں نہ کسی کی نوکری کر سکتا ہوں۔ تب اُس نے کہا اجی ایسے خیال فاسد کو اپنے جی سے دور کر کہ اس عورت نیک بخت کو کوئی مرد فریفتہ نہیں کر سکتا اور بدبخت بی بی کو کوئی شوہر سنبھال نہیں سکتا۔ تم نے حکایت اُس جوگی کی نہیں سُنی جو ہاتھی کی صورت بن کر اپنی جورو کو پیٹھ پر چڑھائے جنگل جنگل پڑا پھرتا تھا۔ اور اُس بے حیا نے اُس کی پیٹھ پر ایک سو ایک مرد سے بدکاری کی تھی۔

تب اُس لشکری نے پوچھا کہ اُس کی نقل کیونکر ہے۔ تو بی بی کہنے لگی۔ نقل ہے کہ ایک راہگیر نے کسی بیابان میں ایک فیل مست بمع عماری دیکھا کہ چلا آتا ہے۔ تب وہ اُس کی دہشت سے ایک بلند درخت پر چڑھ گیا۔ قضا کار وہ فیل اُسی درخت کے نیچے آیا۔اور اُس عماری کو اپنی پیٹھ سے اُسی جگہ اتار کر رکھا اور آپ چرائی کو گیا۔

اس مرد نے دیکھا کہ اس عماری میں ایک عورت خوبصورت حسین ہے۔ اس واسطے اس درخت پر سے اُترا۔ اُس کے پاس آ کر باتیں اور مزاخیں کرنے لگا۔ وہ بھی اُس سے خوش ہو کر اپنے مطلب کی باتیں ناز و انداز سے کر کے ایسی مختلط ہوئی کہ گویا ہمیشہ کی آشنائی تھی۔ غرض شہوت کے غلبہ سے بدکاری میں مشغول ہوئی۔ بعد فراغت کے اُس عورت نے ایک تاگا اپنی جیب سے گرہ دار نکالا اور ایک گرہ اُس ڈورے میں اور دی۔

تب اُس مرد نے پوچھا کہ تم کو اپنے خدا کی قسم سچ کہو کہ یہ ڈورا کیسا ہے اور یہ گرہیں اس میں کیسی ہیں۔ مجھ کو بھی اس احوال سے خبردار کرو۔ تب وہ بد ذات کہنے لگی کہ میرا شوہر جادوگر ہے۔ میری حفاظت کے واسطے ہاتھی بنا رہتا ہے اور مجھے اپنی پیٹھ پر چڑھائے جنگل جنگل پھرتا ہے۔ اُس کی اس خر داری پر میں سو مردوں سے بدکاری کی اور یادگاری کے واسطے ایک ایک گرہ دی۔ آج تجھ سمیت ایک سو ایک گرہ ہوئی۔

جب وہ یہ داستان تمام کر چکی تب اُس کے شوہر نے کہا کہ اب میرے حق میں کیا فرماتی ہو جو کہو سو کروں۔ تب اُس عورت نے کہا کہ بہتر مصلحت یہی ہے کہ تم سفر کرو اور کسی کے نوکر ہو۔ میں ایک گلدستہ تر و تازہ پھولوں کا دیتی ہوں۔ جب تک وہ گلدستہ پژمردہ نہ ہو تب تک جاننا کہ میری بیوی حرمت و عصمت سے بیٹھی ہے اور اگر خدانخواستہ وہ مرجھا جاوے تو معلوم کرنا کہ اس سے کچھ فعل صادر ہوا۔

یہ بات اُس لشکری کو خوش آئی۔ تب ناچار اُس سے جدا ہو کر کسی ملک کو واسطے روزگار کے چلا اور اُس عورت نے موافق کہنے کے ایک گلدستہ اُسے دیکر رخصت کیا۔ آخر وہ کسی شہر میں پہنچا اور کسی امیر زادے کا نوکر ہوا۔ غرضیکہ اُس گلدستہ کو بخوبی آٹھوں پہر اپنے پاس رکھتا اور دیکھتا کہ اتنے میں موسم خزاں کا گلستان جہان میں پہنچا اوور ہر ایک گل و غنچہ نے چمن دھر سے سفر کیا اور زمانے میں گل و غنچہ کا نام و نشان نہ رہا سوائے اُس گلدستہ کے جو اُس لشکری کے پاس تھا۔

تب امیر زادے نے اپنے مصاحبوں سے کہ اگر لاکھ روپے خرچ کیجیے تو ایک پھول میسر نہیں ہوتا اور کسی بادشاہ وزیر کے ہاتھ بھی نہیں لگتا ہے۔ تعجب ہے کہ یہ بیچارہ غریب سپاہی ہمیشہ ایک گلدستہ تازہ بتازہ کہاں سے لاتا ہے۔ تب اُنہوں نے عرض کی کہ حضرت سلامت ہم کو بھی یہی تعجب ہے۔

تب اُس امیر نے پوچھا کہ اے لشکری یہ گلدستہ کیسا ہے اور کہاں سے تیرے ہاتھ لگا ہے۔ اُس نے کہا کہ یہ مجھ کر میری بی بی نے اپنی حرمت کی نشانی دی ہے اور کہا ہے کہ جب تک یہ گلدستہ تر و تازہ رہے گا، یقین جانیو کہ میری عصمت کا دامن گناہ سے نہیں بھرا۔

اس بات پر وہ امیرزادہ ہنسا اور کہنے لگا کہ اے لشکری جورو تیری جادوگر اور مکارہ ہے۔ اُس نے تجھے فریب دیا ہے اور اپنے دو باورچیوں میں ایک کو کہا کہ تو اس لشکری کے شہر میں جا اور اُس کی بی بی سے جس طرح مکر و فریب سے بنے مل کر جیسے چاہے اسے …… اور جلد پھر آ۔ اور اُس کی کیفیت سے آگاہ کر۔ دیکھیں تو یہ گلدستہ کھلا رہتا ہے یا نہیں۔ بھلا یہ بھی معلوم ہو۔

وہ باورچی اپنے آقا کے حکم کے بموجب اُس کے شہر میں گیا اور ایک عورت دلالہ کو کچھ سمجھا بجھا کر اُس کے پاس بھیجا۔ وہ پیر زال اُس عورت کے گھر گئی اور جو کچھ کہ اُس نے کہا تھا سو سب کہا بلکہ اپنی طرف سے بھی بہت کچھ کہا لیکن اُس نے کچھ جواب اُس کٹنی کو نہ دیا۔ بس اتنا کہا کہ اُس مرد کو میرے پاس لے آ۔ میں دیکھوں وہ میرے لایق ہے یا نہیں۔

آخر اُس بڑھیا نے اُس شخص کو اُس عورت کے سامنے کر دیا۔ تب اُس نیک بخت نے اس مرد کے کان میں جھک کر کہا کہ اچھا میں حاضر ہوں لیکن اس وقت تو جا اور اُس رنڈی سے کہہ کہ میں اس عورت سے دوستی نہ کروں گا کہ میرے لایق نہیں اور بعد پہر رات کے اکیلا بیدھڑک میرے پاس چلا آ۔ پھر جو کچھ تو کہے گا میں قبول کروں گی پر اُس کو خبر مت کر کیونکہ یہ راز اس قوم سے کہنا اچھا نہیں ہے۔

غرض اُس مرد نے اس بات کو پسند کیا اور اُس کے کہنے کے بموجب اُس دلالہ سے کہا کہ میں اس سے آشنائی نہ کروں گا کیونکہ یہ میرے قابل نہیں اور بعد آدھی رات کے اس عورت کے دروازے پر آیا اور دستک دی۔ اُس عورت نے اپنے گھر کے اندر ہی کنوئیں پر ایک چارپائی کچے سوت کی بنی ہوئی بچھوائی۔ اور ایک چادر اُس پر کسوا کر اُس مرد کو بلا کر کہا کہ اس پر بیٹھ۔ وہ مارے خوشی کے جونہی بیٹھا وہیں اُس کے اندر گر پڑا اور غل کرنے لگا۔

تب اُس بی بی نے کہا کہ اے شخص سچ کہہ کہ تو کون ہے اور کس کا بھیجا ہوا ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ اگر سچ کہتا ہے تو جیتا چھوڑوں گی اور نہیں تو اسی کنویں میں تیری جان ماروں گی۔ تب اُس نے بنا چاری تمام احوال اپنا اور اُس امیر زادے کا اور اُس کے خاوند کا مفصل بیا ن کیا۔ پر اُس حادثے سے نکل نہ سکا۔ اُسی چاہ میں ایک مدت بند رہا۔

اُس امیر زادے نے اُس کے نہ پھر آنے کے باعث سے دوسرے باورچی سے کہا کہ تو بھی یہاں سے بہت سا مال تجارت کا اُس شہر میں لے جا اور اُس عورت سے دوستی کر کے ترت اسے …… اور جلد پھر آ۔ لیکن ایسا نہ کرنا کہ تو بھی اُسی کی طرح وہیں کا ہو رہے۔ آخر وہ بھی اُس ملک میں گیا، اور دلالہ کو اپنے ساتھ لیکر اُس کے گھر آیا اور اُسی طرح سے وہ بھی اُسی چاہ میں قید ہوا۔

تب امیر زادے نے جانا کہ شاید اُس پر کچھ آفت پڑی جو اب تک ادھر نہ آیا۔ تب آپ ہی ناچار ہو کر ایک روز شکار کا بہانہ کر کے اُس ملک کو چلا اور مع لشکر وہ لشکری بھی اُس کے ساتھ گیا اور گلدستہ تر و تازہ اپنی بی بی کے آگے رکھ دیا۔ تب اُس عورت نے واردات اپنی گزری ہوئی ہوبہو اپنے شوہر سے کہی۔

بعد دو دن کے وہ لشکری اپنے آقا کو گھر لے گیا اور ضیافت کی اور اُن دونوں کو اُس کنوئیں میں سے نکالا، لونڈی کے کپڑے پہنا کر کہا کہ ہمارے گھر مہمان آیا ہے۔ اگر تم آج کھانا اچھا پکا کے اُن کے آگے لے جاؤ گے اور خدمت اُن کی بجا لاؤ گے تو کل ہم تم کو آزاد کریں گے۔ غرض وہ دونوں ویسے ہی کپڑے پہن کر کھانا امیر زادے کے روبرو لے گئے۔

چونکہ کنوئیں کے دُکھ سے اور تھوڑا کھانا کھانے سے سر کے بال اور مونچھ داڑھی کے جھڑ پڑے تھے اور منہ کا رنگ متغیر ہو گیا تھا۔ امیر زادے نے فی الفور انہیں نہ پہچانا اور لشکری سے پوچھا کہ ان باندیوں نے ایسی کیا تقصیر کی ہے جو تم نے اُن کا سر منڈوایا ہے اور اس احوال کو پہنچایا ہے۔ تب اُس لشکری نے کہا کہ اُنہوں نے بڑا گناہ کیا ہے۔ میں کیا عرض کروں، آپ ہی ان سے پوچھیئے۔ یہ اپ ہی گناہ بیان کریں گی۔

آخر اُس امیر زادے نے غور کر کے دیکھا تو اپنے باورچیوں کو پہچانا۔ اور اُنہوں نے بھی اپنے آقا کو پہچانا۔ تب وہ دونوں دوڑ کر اُس کے پاؤں پر گر پڑے اور بے اختیار رونے لگے اور اُس لشکری کی جورو کی عصمت پر گواہی دی۔ جب اُس لشکری کی عورت نے پردے کے اندر سے کہا کہ اے امیر زادے میں وہی عورت ہوں۔ کہ جس کو تو نے جادوگر مقرر کیا تھا اور میرے خاوند کو احمق بنا کر ہنسا تھا۔ اور میرے امتحان کے واسطے آدمی بھیجے تھے۔ اب دیکھا تو نے کہ میں کیسی ہوں اور خدا کے فضل سے میری عصمت کیسی ہے، تب وہ امیر زادہ شرمندہ ہوا۔ اور عذر خواہی کرنے لگا۔

8 thoughts on “خوبصورت جورو

  1. ابلیس کی بیوہ! میرے کمنٹ کی نیچے ایڈیٹنگ کر کے تم میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔ اللہ تعالیٰ دلوں کا حال بہتر جانتے ہیں۔ میرے دوست، احباب، تمام ساتھی یہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ وجاہت صاحب کس قسم کے انسان ہیں۔ اس لیے مجھے پرواہ نہیں ہے تم میرے نام سے کچھ بھی لکھتی پھرو۔
    ابلیس کی بیوہ کو یہ طوائفانہ انداز قصے کیوں نہیں پسند ہوں گے وہ اسی لیے تو یہ بکواسیات یہاں لکھ کر عین سویرا کے ماحول کو پراگندہ کر رہی ہے۔ اب بھی وقت ہے ابلیس سے طلاق لے کر مسلمان بن جاؤ۔

    لیکن ایک بات بالکل سچ کہتا ہوں کہ مجھے آپ سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ آپ کی تحریر بہت ہینڈسم ہے اور جملے تو کمال کے لکھتی ہیں آپ۔ اور الفاظ تو اتنے خوبصورت اور حسین ہوتے ہیں کہ بندہ بہتا چلا جائے۔ میں آپ سے بہت متاثر ہوں اور آپ سے اردو ادب سیکھنا چاہتا ہوں، لیکن سب کے سامنے نہیں۔ آپ ماسٹر ہیں میری کسی بھی بات پر ڈانٹ سکتی ہیں۔ بس میرے اور آپ کے بیچ۔ ٹھیک ہے؟

    Liked by 1 person

  2. سمجھ سے باہر ہے یہ عجیب واہیات قصے۔

    لیکن سچ کہوں تو مجھے جی جان سے پسند ہیں، اسی لئے کمنٹ کرتا ہوں کہ آپ اور لکھیں اور ہمیں اسی طرح شاندار باتیں پڑھنے کو ملتی رہیں۔ آپ سے رونق ہے اس بلاگ میں۔ آپ سدا چمکتی رہیں۔ آمین!

    Liked by 1 person

  3. محترمہ خوشاب آپ بہت ہی بےباک انداز میں بلاجھجک غیر اخلاقی پوسٹ کررہی ہیں جو اس بلاگ عین سویرا کے مزاج اور مقاصد سے ہٹ کر ہے، اس غیر اخلاقی پوسٹ کے زریعے آپ کیا سمجھانا چاہ رہی ہیں واضع کریں ۔

    آپ کی یہ بے باکی میرے دل کو بھا گئی ہے اور میں سچ کہتا ہوں کہ آپ جیسی کوئی اور خاتون میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ کیا انداز ہے اور کیا مہارت ہے اور ساتھ میں کیا موضوعات لیکر آتی ہیں آپ۔ مجھے تربوز بہت پسند ہیں، لیکن اس موسم میں کہاں سے لاؤں، لیکن مجھے یہ قوی امید ہے کہ آپ مجھے مایوس نہیں کریں گی۔ میں اسی لئے تو عین سویرا پر آتا ہوں کہ یہاں آپ جیسی قابل اور ہنر مند اور ہوشیار اور اسمارٹ خواتین بھی آتی ہیں۔ آپ کے لئے یہ تصویر ہے۔ میری طرف سے گفٹ قبول فرمائیں تو بندہ پروری ہوگی۔

    Liked by 3 people

      1. تم صرف عورت ہونے کا فایدہ اٹھا رہی ہو اور میں عین سویرا کے ادب حرمت اور عزت کا خیال رکھ رہا ہوں تم گھٹیا سوچ رکھنے والی زہنی بیمار عورت ہو۔اس بلاگ میں سب عزت اور احترام کرنے والے ممبرز ہیں جس کو تم کامیابی سمجھ رہی ہو وہ تمھاری ہار ہے دنیاوی علم سے تم ناجائز فائدہ اٹھارہی ہو تم نے سیدوں کا مذاق اُڑایا ہے باقی اللّٰہ تعالیٰ پر چھوڑتا ہوں وہ بہتر انصاف کرنے والا ہے۔

        شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ مجھے آپ سے بات کرکے کتنا سکون ملتا ہے۔ حالانکہ میرے حضرت صاحب نے منع کیا تھا کہ کمنٹ نہ کریں لیکن آپ کی باتیں اور شیئرنگ سچ میں اتنی پیاری ہیں کہ میں خود کو روک ہی نہیں سکتا اور آپ کی پیاری باتوں کو سننے کیلئے کمنٹ کرڈالا۔ آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔ بس آپ مجھ سے ناراض مت ہوئیے گا۔ آپ واقعی میانوالی کی بھولی بھالی جٹی ہیں۔ مجھے میاں والی بہت پسند ہیں۔ ان میں سمجھ اور تجربہ ہوتا ہے۔ یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔

        Liked by 1 person

    1. یہ بھی اپ ڈیٹ کردیا ہے۔ میں نجف الطرفین سید ہوں اللّٰہ کی مار سے ڈرو،تم حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی آل کو تنگ کررہی ہو قدرت کا بہترین انتقام شروع ہونے والا ہے انتظار کرو۔

      لیکن سچ کہتا ہوں، نہ مجھے نجف کا مطلب پتا ہے اور ہی الطرفین کا۔ مجھے تو آل کا مطلب بھی ٹھیک سے نہیں معلوم، بس سب لکھتے ہیں، میں نے بھی لکھ دیا۔ مجھے قدرت کے انتقام سے بڑا ڈر لگتا ہے، پتا نہیں قدرت میرے ساتھ کیا سلوک کرے اور کون سی سزا مجھے دے، اس لئے میں آپ کے سامنے توبہ کرتا ہوں اور ہمیشہ کے لئے معافی اور درگزر کا خواستگار ہوں۔ جو مغلظات میں نے بکے، ان کیلئے تہہ دل سے معذرت۔ پتا نہیں کیسے بہک گیا اور شیطان کے کہے پر عمل کر گزرا۔ اللہ مجھے معاف کرے اور آپ بھی معافی دے دیں گی تو دل اطمینان میں آجائے گا۔

      Liked by 2 people

تبصرہ کریں