قلم


Words:1210

یہ کسی خاتون کی متاثر کُن بلاگ پوسٹ ہے جسے میں کسی لفظی تغیر کے بغیر یہاں پیش کر رہا ہوں۔ صرف اردو املا اور پنکچوئیشن درست کی ہیں۔ اس خاتون نے محبت کو بڑے قریب سے دیکھا ہے اور محبت کے دکھ کو بھی۔ بلاگ پوسٹ کا لنک یہ ہے۔

https://wordpress.com/read/feeds/128483525/posts/4154498911

قلم اٹھانا اور قلم سنبھالنا بہت مشکل ہے۔ خصوصا جب آپ نے کوہ قاف کی پریوں اور پری زادوں کی، جن اور چڑیلوں کی داستان نہ لکھنی ہو۔ جب آپ نے انسانوں کی زندگیاں لکھنی ہوں۔


یہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جب آپ نے خوشیاں نہیں دکھ لکھنے ہوں، ہنسی نہیں تکلیف لکھنی ہو۔ یہ اذیت ناک ہو جاتا ہے جب آپ نے وہ غم لکھنے ہوں جو آپ کی اپنی روح پر اترے ہوں، وہ سبق لکھنے ہوں جو آپ نے کسی اونچی پہاڑی سے بار بار کھائی میں گر کر سیکھے ہوں۔


تبھی تو اکثر قلم تھامے دو لفظ لکھ کر بیٹھی رہ جاتی ہوں۔ گھنٹہ گزر جاتا ہے مگر قلم چل نہیں پاتا۔ کوئی کتنی بار ایک ہی پتھریلی راہ پر پاوں زخمی کرے اور پھر ان زخموں سے تخلیق کرے؟

جب بال سے بھی باریک رستہ کئی بار گر گر کر پار کیا تو سمجھا
کئی دکھ زندگی سے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ ان کا حجم سنبھالے نہیں سنبھلتا
ڈھونے کی ہزار کوشس کریں ڈھویا نہیں جاتا۔
مجھے لگتا تھا میں پوری داستان لکھ دوں تو

کاغذات میں آگ لگ جاے!
پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائے

اس قدر بوجھ تھا دل پر!


"تم بھیڑیوں کے بیچ رہتی تھی”
یہ کسی نے کہا۔
میں نے جن پر اعتماد کیا وہ سب بھیڑیے تھے۔
یہ دکھ میرے صبر سے بڑے تھے۔
میں نے مر کر دیکھا تھا
کیسے میرے عزیز میرے سرمائے پر ٹوٹ پڑے تھے
وہ سب جو میرے لئے سرمایہ سے بھی قیمتی تھے!
میں سوچتی رہی۔ سال بھر سوچتی رہی۔ میری تکلیف کو جان کر انسانی دماغ پھٹ جائے گا!


میری تکلیف کیا تھی؟
انسانوں سے ملے دکھ!
ان انسانوں سے جن پر ہم آسرا کئے ہوں، جنہیں ہم نے زندگی میں سب سے اونچی مسند پر رکھا ہو، جنہیں ہم نے اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہو۔ انہی انسانوں کے دئیے دکھ دل سہار نہیں پاتا۔


تب میرے کانوں میں یہ بات ہزار بار گونجی
ہم یہ کتاب پہاڑ پر اتارتے تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا!”
قرآن ہزار صدیوں کی حکایتوں سے بھرا ہے، نافرمان انسان کی گمراہی کی حکایتوں سے۔
بے قدرے انسان کی بے وفائی کی داستانوں سے۔

کیا خدا بھی ہمیں اپنے درد کی داستان سنانا چاہتا ہے؟
بے وفائی جو سہنا عذاب ہے خصوصا تب جب آپ خود ظالم اور بے وفا نہ ہوں
"ہم یہ کتاب پہاڑ پر اتارتے تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا!”
"ریزہ ریزہ”
تخلیق کار کا سینہ کس قدر چھلنی ہو گا۔ اس اذیت کو اس نے کس طرح جھیلا ہو گا،
کچھ دکھ پہاڑوں سے بھی وزنی ہوتے ہیں۔ پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر سکتے ہیں۔
وہ جن سے محبت کی جائے ان کے دئیے دکھ جھیلے نہیں جاتے!
پھر چاہے وہ اولاد ہو، والدین ہو، بہن اور بھائی ہوں، زندگی کے ساتھی ہوں، دوست احباب ہوں، محبوب ہوں کہ بندے!


انسان محبت اس لئے کرتا ہے کیونکہ اس کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ انسانی فطرت میں محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ کس سے کرے؟ بے چین انسان ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ انسان کو اللہ نے اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے ناں!۔


کبھی ماں باپ کو پوجتا ہے۔ وہاں سے نکلتا ہے تو دوستوں کی طرف لپکتا ہے۔ یہی محبت ایک پارٹنر چاہتی ہے۔ وہ مل جائے تو اولاد چاہتی ہے کہ محبت کو اپنے جینے کی جگہ چاہیے۔


اولاد نہ ملے تو وہی محبت کسی کی اولاد میں انسان ڈھونڈتا پھرتا ہے
وہ بھی نہیں تو گھر میں پالتو جانور اکٹھے کر لیتا ہے۔ کتے بلیوں کو اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے!
کیا کرے انساں محبت کرنے پر مجبور ہے۔ اس کے بغیر گزارا نہیں۔ کیوں نہیں کہتا انسان کہ محبت تکلیف دیتی ہے لو نہیں چاہیں مجھے ماں باپ، دوست احباب، بیوی، شوہر، بچے؟
نسل در نسل والدین اولاد سے تنگ ہیں مگر پیدا کرنا نہیں چھوڑتے!
اولاد والدین سے عاجز، مگر چھن جائیں تو پکارتے پھرتے!
شوہر بیوی سے تنگ، بیوی شوہر سے عاجز!
محبوب محب سے خفا!
پھر بھی آج تک محبت کا ہر کاروبار چل رہا۔
نہیں ملتی تو گلی گلی انسان روتا پھرتا ہے۔
کوئی اسی محبت کے پیچھے ایدھی کوئی مدر ٹریسا بن جاتا ہے۔
محبت انسان کو پٹخ پٹخ کر مارتی ہے۔ جینے نہیں دیتی۔


میں نے محبت کرنے والے رشتوں سے دھوکہ کھایا تو پودوں اور پھولوں سے دل لگایا!
ان کے لئے اپنی توجہ اور وقت مخصوص کر دیا۔
میری زرا سی توجہ سے وہ پھلنے پھولنے لگے۔ پھول اور خوشبو دینے لگے۔ انکے رنگ اور خوشبو سے مجھے زندگی ملنے لگی۔

بیٹی کی ضد پر گھر میں وہسکی آ گیا۔ وہسکی ایک چھوٹا سا پرشین بلا تھا۔
ہم جنہوں نے کبھی بلی کو پیار سے نہ دیکھا، اسے گھر رکھنے پر مجبور ہوئے۔
وہ میرے قریب قریب پھرتا، پاوں سے ٹکراتا پھرتا۔ رات میں بستر پر گھس کر ساتھ لگ کر سو جاتا۔ میں اٹھتی اسے باہر نکالتی، وہ اگلے روز پھر آ جاتا۔ کندھے پر پاوں رکھ کر میرے منہ کی طرف تکتا۔ وہسکی نے مجھے حیران کر دیا۔
اتنی محبت؟
ارے اتنی محبت تو ہم نے کبھی دیکھی ہی نہیں۔ ماں باپ سے،میاں سے نہ بچوں سے!
ہر رشتہ سو سو تقاضے کرتا!
اور یہ وہسکی اسے جتنا پرے دھکیلا یہ قریب آ کر ساتھ لگ کر بیٹھتا!
میں نے سوچا تبھی تو جاتا ہے انسان بلیوں تک کہ اسے انسان محبت کے قابل نہیں ملتا۔
کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے!
انسانوں کی دنیا کا تو یہی اصول ہے۔
انسان محبت کرنے پر مجبور ہے، کوئی لے لے!کوئی اسے یہ محبت کرنے کا موقع تو دے!
مگر محبت لینا سب چاہتے ہیں، دینا کوئی نہیں چاہتا!
سب داستانیں یک طرفہ رہ جاتی ہیں۔ والدین اور اولاد کی، بھائی اور بہن کی، دوستوں کی، محب اور محبوب کی!
ہم انساں ایک دوسرے کو یہ موقع ہی نہیں دے پاتے!
موقع مل جائے تو سنبھال نہیں پاتے!
پھر ہمیں بلیوں اور کتوں سے،پودوں اور درختوں سے محبت کرنی پڑ جاتی ہے۔ جو تھوڑی سی توجہ سے بہت سی محبت لوٹا دیتے ہیں!


خدا کے پاس فرشتے تھے، اسے پوجنے والے! اسے ہر لمحے چاہنے والے
پھر بھی اس نے انسان بنایا
اس سے دل لگایا
وہ انسان جس نے اسے ماننے سے ہی انکار کر دیا!
مان لیا تو چاہ نہ سکا!
قلم اٹھانا خدا کے لئے بھی تکلیف دہ تھا
خصوصا جب اسے پریوں کی کوہ قاف کی افسانوی کہانیاں نہیں سنانی تھیں۔
اسے زندگی کی داستان سنانی تھی
ازل سے ابد تک کی زندگی!
ہم چالیس پچاس سال کی زندگی کے بوجھ سے تھک جاتے ہیں
وہ صدیوں سے زندہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ جس کے سب کچھ اختیار میں ہے پھر بھی نسل در نسل انسانیت کے دئیے دکھ جھیلے رہا ہے!
تبھی تو اس نے اپنی کتاب کا آغاز ہی قلم اور پڑھنے، جاننے کے ذکر سے کیا!
پہاڑ پر قرآن اترتا تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا !
تبھی اسے انسان کے دل پر اتارا گیا!
تھوڑا تھوڑا کر کے!
بتانا بھی مشکل تھا
سننا بھی مشکل!
مگر انسانی دل یہ بوجھ اٹھا لیتا ہے!

8 thoughts on “قلم

  1. شیخ محترم تحریر میں محبت اور دکھ دونوں شامل ہیں۔
    اللہ تعالیٰ کے قلم اور اللہ تعالیٰ کے احساسات اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں۔ خاتون نے اللہ تعالیٰ کے قلم اور احساسات کو اپنے تئیں قلمبند کر دیا یہ کچھ اچھا نہیں لگا۔

    پسند کریں

تبصرہ کریں